رشتوں کی کرچیاں

رشتوں کی کرچیاں
صائمہ نور

رشتے ،جو ہمیں قدرت عطا کرتی ہے جو ہمارے وجود میں بھی آنے سے پہلے ہمیں زندگی سے تحفے میں ملتے ہیں جو خود ہمارا وجود ہوتے ہیں ،جینے کا سہارا ہوتے ہیں جینے کی وجہ ہوتے ہیں،وہیں کچھ رشتے ہمیں دنیا سے ملتے ہیں دوستی کے،محبت کے،خلوص کے،اپنائیت کے،مگر جہاں خوبصورتی ہے وہیں بدصورتی بھی ہے جہاں رشتوں کے اتنے رنگ ہیں انہی پیارے رنگوں میں کچھ بھدے رنگ بھی ہیں جو منہ پر نقاب چڑھائے ملتے ہیں اور نقاب زیادہ دیرپا نہیں ہوتے کبھی نا کبھی کسی موڑ پر انکو اترنا ہی ہوتا ہے۔
کوئ وحشت زدہ سا میرا دم گھونٹ رہا تھا ،میرے لئے سانس لینا دوبھر سا ہو گیا تھا، ناصر مجھے بچا لیں دیکھیں یہ مجھے مار رہا ہے میرا دم گھونٹ رہا ہے،میں بے بسی کے عالم میں تھی نا منہ سے آواز نکلتی تھی نا ہی ہاتھوں میں ہلنے کی سکت تھی،افف میرے خدایا مدد ،میں نے پوری شدت سے خدا کو یاد کیا اور اپنی تمام قوت کو یکجا کرنے کی کوشش کی اور بالآخر کامیاب ہوئ، میں شاید گہری نیند کی مدہوشی میں تھی مجھے لگا کوئ ڈراؤنا خواب ہے آنکھ کھلی تو ختم ہو جائے گا ،مگر مجھے یہ معلوم نا تھا کہ یہ وہ ڈراؤنا خواب ہے جو آنکھ کھلنے پر شروع ہوگا۔

ارے یہ کیا انیلا۔۔۔؟ تم ابھی تک تیار نہیں ہوئ؟میں ابھی محض ناشتے سے فارغ ہی ہوئ تھی اور اپنی ازلی سستی کے باعث ہنوز صوفے پہ براجمان تھی کہ ناہید باجی جو کہ میری اکلوتی بڑی بہن تھیں تشریف لے آئیں چونکہ وہ مجھ سے عمر میں کافی بڑی تھیں تو انکا انداز گفتگو ہمیشہ بہت تحکمانہ ہوا کرتا تھا اور آج تو وہ تشریف بھی خاص کر میرے لئے لائیں تھیں تا کہ میری شادی جو کہ دو مہینے بعد ہونا طے پائی تھی ،اسکی تیاری میں میری مدد کروا سکیں۔
اسلام علیکم۔۔۔ قاسم بھائ بھی انکے پیچھے پیچھے چلے آئے تو چار و ناچار مجھے نشست چھوڑنا ہی پڑی
ناہید باجی اور قاسم بھائ کی شادی کو دس سال کا عرصہ بہت گیا تھا دونوں اولاد کی نعمت سے محروم تھے مگر قاسم بھائ ایک آئیڈیل شوہر تھے کبھی کبھی مجھے اپنی بہن کی قسمت پہ رشک آتا کہ کتنا سلجھا ہوا اور نرم مزاج انسان اسکا رفیق سفر ہے۔
اب جلدی جلدی برتن سمیٹو اور چلنے کی تیاری کرو،ادھا دن گھر میں ہی گزر جائے گا نہیں تو، والدہ نے مجھے آرام سے کام کرتے دیکھا تو فوراً ٹوک دیا میں بھی جلدی جلدی ہاتھ چلانے لگی۔
پھر ہم نکلے تو تقریبآ رات دس بجے کے قریب گھر میں قدم رکھا تھکن سے برا حال تھا،
ناہید اگر تمہیں یہاں رکنا ہے تو رک جاؤ میں گھر چلے جاتا ہوں ،پارکنگ میں ہی قاسم بھائ نے بجو کو مخاطب کیا جو شاپنگ بیگز سمبھالے ہوئے تھی،
ہاں نا بجو رک جاؤ نا پلیز،میں جو پہلے سے ہی یہ چاہتی تھی کہ بجو رک جائے مگر شاید قاسم بھائ کو برا نا لگے اس خیال سے چپ تھی مگر انکے خود استفار کرنے پر میں بھی اصرار کئے بنا نا رہ سکی ،بجو بھی خوب ہی تھک چکی تھی اور کل پھر انہوں نے میرے ساتھ شاپنگ پر جانے کے لئے آنا تھا سو وہ بھی رکنے پر آمادہ ہو گئ۔
ہم دونوں بہنیں شاپنگ بیگ سنبھالتے اوپر ا گئے ،قاسم بھائ نیچے سے ہی جا چکے تھے،
یار بجو دعا کیا کرو کہ ناصر بھی قاسم بھائ جیسے شوہر ثابت ہوں،ہم لوگ گھر میں داخل ہو چکے تھے اور بیگز ٹیبل پر رکھ کر میں صوفے پر اور بجو تخت پر براجمان ہو چکی تھی ،کھانا ہم کھا چکے تھے اور امی چائے لے آئیں تھیں۔
پھر تقریبا ایک مہینہ لگا مجھے شادی کی تیاریاں مکمل تو نہیں مگر کسی حد تک کرنے میں جس میں میری بہن اور بہنوئی پیش پیش تھے ،میں دیکھتی قاسم بھائ کے ماتھے پر کبھی ایک شکن تک نا آئ جیسے عمومی طور پر دامادوں کے چہرے سسرال کے نام سے ہی تن جاتے ہیں ،قاسم بھائ تو جیسے ہمارے لئے ایک نعمت ثابت ہو رہے تھے میں دیکھتی اور بجو کی قسمت پر رشک کئے جاتی۔
“مگر ہر چمکنے والی چیز سونا نہیں ہوتی لیکن چمک اصلی ہو یا نقلی آنکھوں کو خیرہ ضرور کر دیتی ہے “۔
وقت پر لگا کے گزرا اور میں دلہن بن کے ناصر کے آنگن میں ا گئ ، ناصر میرے لئے خدا کے عطا کردہ انعام سے کم نا تھے وہ ایک انتہائ محبت کرنے والے اور شریف النفس انسان ثابت ہوئے ۔میں خدا کا جتنا شکر ادا کرتی کم تھا ،میں جو شادی سے پہلے بہت سے خدشات کا شکار تھی اور قاسم بھائ کو دیکھ دیکھ کر یہی سوچتی کہ پتا نہیں ناصر کیسے ہونگے اتنے ہی خیال رکھنے والے ہونگے یا نہیں اب انتہائ پر سکون ہو گئ تھی ۔
میری شادی کو سال ہی گزرا اور ننھی مسکان میری زندگی میں ا گئ میں اپنی نئی زندگی میں خوش اور مگن تھی کہ ایک دن اچانک میری طبعیت خراب ہو گئ پیٹ میں شدید درد اٹھا،ناصر آفس جا چکے تھے چونکہ میں گھر پر اکیلی تھی میں ناصر کو پریشان نہیں کرنا چاہتی تھی اس لئے بجو کو فون کیا اور اپنی حالت بتائ بجو بولی کے میں تمہارے گھر آتی ہو تو جس سے کافی آرام آیا اور کچھ ٹیسٹ لکھ کر دئے ۔
وہاں سے بجو مجھے اپنے گھر لے گئ اور ناصر کو بھی آفس سے وہیں آنے کو کہا۔
ناصر آئے تو بجو بولی کہ آج یہیں رک جاؤ کل ٹیسٹ کروا کہ اپنے گھر چلی جانا میں اور ناصر بجو اور قاسم بھائ کے بہت شکر گزار ہوئے۔
ہم وہیں تھے اور رات کا کھانا کھا کر فارغ ہوئے تو قاسم بھائ خوش مزاجی سے کھڑے ہوئے اور بجو کو بولے کہ آج رات کی چائے میں خود تم سب کے لئے بناؤں گا کیونکہ تم سب تھک گئے ہو،کسی کو بھلا کیا اعتراض ہو سکتا تھا سب نے فورا حامی بھر لی ،پھر بھائ چائے لائے اور سب کو دی سوائے میرے وہ بولے کہ تمہارا کپ کچن میں رہ گیا ہے مجھے حیرت ہوئ مگر میں نے سر جھٹک دیا،اود زیادہ پرواہ نہیں کی ،چائے پیتے ہی سب کو نیند نے آلیا اور سب فورا ہی سونے چلے گئے میں بھی لیٹ گئ بہت تھکی ہوئ تھی اس لئے فورا آنکھ لگ گئ۔
ابھی مجھے سوئے ہوئے کچھ دیر ہی گزری ہوگی کہ مجھے اپنے سینے پر کسی کا ہاتھ رینگتا ہوا محسوس ہوا ،انکھ کھلی تو بھیانک منظر میرا منتظر تھا سامنے قاسم بھائی مکرو ہ چہرہ اور مکروہ ہنسی لئے کھڑے تھے،پہلے تو مجھے یقین ہی نہیں ایا،مجھے لگا کہ میں کوئ خواب دیکھ رہی ہوں،مگر بدقسمتی سے یہ کوئ خواب نہیں تھا زندگی پر داغ لگا دینے والی سچائ تھی ،میں نے انہیں پرے دھکیلنا چاہا مگر اس مکار شخص کی گرفت مضبوط تھی اس نے میرے منہ پر اپنا ہاتھ رکھ دیا میں چار و ناچار زور زور سے اپنے ہاتھوں سے بیڈ ہلانے لگی کہ ناصر اٹھ جائیں مگر اس مکروہ شخص نے سبکو نیند کی گولیاں کھلا دیں تھیں جس کی وجہ سے سب بے خبر سو رہے تھے۔
“مجھے تو شروع سے تم پسند تھیں انیلا،تمہاری بجو میں وہ بات کہاں جو تم میں ہے”وہ خبیث لہجے میں بولا،میں تو کب سے اس موقع کی تلاش میں تھا مگر تم کبھی میرے گھر رکنے نہیں آئی ،اج موقع ملا تم سے دل کی بات کرنے کا ،یہ فریبی شخص جب یہ سب باتیں کر رہا تھا تو تھوڑی اس کی گرفت ڈھیلی پڑی اور میں نے پوری طاقت لگا کر اسے نیچے گرا دیا ،اور زور زور سے چلانے لگی ناصر تو نا اٹھے مگر وہ ڈر کر کمرے سے بھاگ گیا میں نے فوراً کمرہ لاک کر دیا،کیونکہ اس وقت سب کو اٹھانا بے سود تھا سب نیند کی گولیوں کے زیر اثر تھے ،وہ شخص اپنے ناپاک ارادوں میں تو کامیاب نا ہو سکا مگر کتنے ہی رشتوں کو بگاڑ کر چلاگیا۔
رات بہت لمبی ہو گئ تھی ،میرے دل کو کسی پل قرار نہیں آرہا تھا جیسے زمین پر کانٹے آگ آئیں ہوں ، صبح ہوئ میرا سر درد سے پھٹا جا رہا تھا جی چاہ رہا تھا کہ چیخ چیخ کر اس مکروہ شخص کا اصلی روپ دنیا کو دکھا دوں مگر بجو کا چہرہ سامنے آ جاتا تھا لیکن اگر آج چپ ہو گئ تو اس شخص کا حوصلہ اور بڑھ جائے گا اسی لئے میں نے تمام مصلحتیں بالائے طاق رکھ کر اس سنگین حقیقت کو عیاں کرنے کا ٹھان لیا۔
میں نے ناصر کو بتایا تو ناصر کا تو دماغ ہی بھک سے اڑ گیا “کیا کہ رہی ہو تم حواسوں میں ہو کوئ غلط فہمی تو نہیں ہوئ تمہیں”
اس شخص نے اپنا امیج اتنا اچھا بنایا ہوا تھا کہ میرے شوہر کو اس بات کا یقین کرنا مشکل ہو رہا تھا،
“ہاں یہ سچ ہے نا چاہتے ہوئے بھی میری آواز کپکپا گئ اور لہجہ بھرا گیا “تو ناصر نے مجھے سینے سے لگا لیا
میں اسے چھوڑوں گا نہیں بدذات کہیں کا،وہ مجھے چھوڑ کر کمرے سے نکلے اور بجو کا دروازہ پیٹ ڈالا
بجو نیند میں آنکھیں مسلتی باہر نکلی
“کیا ہوا ناصر بھائ خیریت تو ہے انیلا کی طبعیت تو ٹھیک ہے،بجو نے پریشانی سے استفار کیا
کچھ ٹھیک نہیں ہے آپ اس مکار شخص کو باہر نکالنے “ناصر نے چیخ کر کہا اب کی بار بجو چونکی اور بات کی سنگینی کا احساس ہوا
“کیا ہو گیا ناصر بھائ کیا بات ہو گئ ہے ابھی وہ یہ پوچھ ہی رہیں تھی کہ وہ مکار کمرے کے اندر سے نمودار ہوا،”کیا ہے بے میرے گھر میں کھڑا مجھ پہ چلا رہا ہے،مجھ پہ کوئ الزام لگانے سے پہلے اپنی بیوی سے پوچھ ،
یہ سننا تھا کہ ناصر اس پر جھپٹ پڑے اور مارنا شروع کر دیا ، ارے مجھے بھی تو بتاو کیا ہوا ہے بجو اپنے شوہر کو چھڑاتے ہوئے چلا چلا کر پوچھ رہی تھی اور میں ،میرے تو ہاتھ پیروں میں جان نا رہی تھی،بجو نے مشکل سے اسے چھڑایا جو لہو لہان ہو گیا تھا مگر پھر بھی ڈھٹائی سے کہ رہا تھا”پوچھو اپنی اس بہن سے رات میں تم سب سوئے تو یہ خود میرے پاس آئ “ابھی اس نے اتنا ہی کہا تھا کہ ناصر نے ایک بار پھر اسے مارنا شروع کر دیا بجو پھر جھپٹی ،”خدا کے لئے بند کرو یہ تماشا ،ناصر پلیز انیلا کو لے کہ ابھی اسی وقت چلے جاؤ یہاں سے،شاید وہ اپنے شوہر کی اصلیت پہلے سے جانتی تھی اسلئے نظریں چرا رہی تھی “میں اور ناصر اسی وقت مسکان کو لئے وہاں سے گھر ا گئے۔
اسکے بعد کئ بار یہ تماشا لگا کبھی والدہ کے سامنے کبھی بھائیوں کے سامنے مجرم نا ہوتے ہوئے بھی مجھے کٹہرے میں کھڑا کیا گیا،
تم کیا کر رہیں تھیں””
“ناصر کہاں تھا”
“بجو کہاں تھی”یہ وہ سوال تھے جو بار بار دہرا کر مجھ پر انگلی اٹھائی گئ اور اٹھانے والے کوئ غیر نہیں میرے اپنے تھے ،بہن ناراض ہو گئ کہ میرے شوہر پر ڈورے ڈالے اور بہکایا،ماں ناراض ہو گئ کہ بہنوئ کا پردہ نہیں رکھا”سب کو بتایا چھپایا کیوں نہیں ،
خدا کا شکر ہے کہ میرے شوہر نے مجھ پر نا صرف بھروسہ کیا بلکہ اعتماد بخشا اپنوں کی بے اعتنائی پر مجھے حوصلہ دیا ، اس واقعے کو کتنے سال بیت گئے مگر اسکے بھدے رنگ جوں کے توں قائم ہیں ،
افسوس اپنوں کی کج ادائی کا ہے کہ الٹا مجھ سے ہی تمام رشتے توڑ دیے وہ رشتے جو کے زندگی کا تحفہ ہوتے ہیں ، چھبن ضرور ہےلیکن میرا دل مطمئن ہے کہ میں غلط نہیں تھی کبھی نا کبھی والدہ اور بہن کو احساس ضرور ہوگا یہ سوچ کر میں نے اپنا فیصلہ سب سے بڑی عدالت پر چھوڑ دیا ہے۔