زینب بیٹی کے نام خط

زینب بیٹی کے نام خط

مرزا صہیب اکرام

زینب بیٹی

میں تم سے کچھ کہنا چاہتا ہوں مگر میں تمہارا سامنا نہیں کر سکتا کیونکہ میں بھی اسی خونخوار اور سفارک معاشرے کا حصہ ہوں جس نے تمہیں نوچا۔ اس لیے میں تمہیں خط لکھ رہا ہوں۔ اس خط میں میرے دل کی باتیں ہیں، میرے ضمیر کی آوازیں ہیں۔ گرچہ الفاظ کمزور ہیں مگرمدعا واضح ہے کہ ہم شرمندہ ہیں کیونکہ ہم سب تمہارے مجرم ہیں۔

کہتے ہیں انسان مر جائے تو بڑی بات نہیں، مگر انسانیت مر جائے تو معاشرے نیست و نابود ہو جاتے ہیں۔ یہاں ایک زینب کو ہی نہیں لوٹا گیا بلکہ سفاک بھیڑیوں نے یہ پیغام دیا ہے کہ تم جب تک ہجوم کی صورت میں ہو، ہم وار کرتے رہیں گے۔ یہ کوئی پہلا واقعہ تو نہیں، پر خدا کرے

کہ آخری ہو۔

وارث شاہ کا پنجاب، جس قصے کہانیوں میں ہم نے پڑھا اور اپنے بچوں کو سناتے بھی ہیں، اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ اس پنجاب کی روایات کو تو ہم نے دفن کردیا۔ اس کے بعد تو درندگی کے افسانے ہیں جو بجا بجا بکھرے پڑے ہیں۔ مجھے زندہ انسانوں کے ہجوم سے مخاطب نہیں ہونا، مجھے تو ہر زینب سے بات کرنی ہے جو میری بہن ہے، بیٹی ہے، جس کامیں مجرم ہوں۔

زینب بیٹی! میں تم سے شرمندہ ہوں۔ میں آج تک کی ہر زینب کا مجرم ہوں۔ تمہیں کون روئے؟ ہم اس قوم سے ہیں جس نے “بی بی زینب” پر غموں کے پہاڑ ٹوٹتے دیکھے تھے۔ ظلم و جبر کرنے والے ہم ہی تو تھے۔ مجھے معلوم ہے تم مظلوم شہید ہوکر جنت مکین ہو چکی ہو مگر ہمارے داغ دار چہرے کو مزید بدنما کرگئی ہو۔

ہمارے جسم بدبو دار اور روحیں گل سڑ چکی ہیں، ضمیر مردہ و بے حس ہو چکے ہیں۔ ہم نے تو تم جیسے معصوموں کے اجلے جسموں کو نوچا ہے۔ ہماری حوس بے قابو ہو چکی ہے۔ بھوکے بھیڑیے بھی اپنے بچوں کو نہیں

کھاتے مگر ہم نے حوا کی بیٹیاں بھنبھوڑ کھائی ہیں۔

قیامت کے روز حشر کے میدان میں گناہ گاروں، سیاہ کاروں کو جب تم نفرت سے دیکھو گی، اللہ کے حضور اپنی لٹی عصمت کا تذکرہ کرو گی تب میدان حشر میں کھڑے وحشیوں کے پاس چھپنے کی کوئی جگہ نہ ہوگی۔

بیٹی! تمہاری قربانی سے کوئي انقلاب نہیں آنے والا، تم غلط سوچی ہو کہ اب ہم جاگ جائیں گے، ایسا کچھ نہیں ہوگا۔ کوئی کاروبار نہیں رکے گا۔ تمہارا لاشا ضرور کبھی کبھی ہماری انسانیت کو جھنجھوڑے گا، ہمارے دلوں کو نرم کرنے کی کوشش کرے گا، بالکل ویسے ہی جیسے پھول سے تمہارے چھوٹے چھوٹے ہاتھ نرم سے تھے۔ مگر افسوس! کچھ رکے گا نہیں۔ تم کو کہاں معلوم ہوگا کہ بیٹی بیٹی کہنے والا، تمہیں پیار کے دو بول سنانے والا، ٹافیوں اور چاکلیٹ دلوانے کے وعدے کرکے تم کو ساتھ لے جانے والا شیطان تھا۔ تم تو اسے انسان سمجھی ہوگی، مگر بیٹی! کیا تم کو کسی نے نہیں بتایا تھا کہ مدت پہلے انسان تو مرچکا، اب تو یہ ناپاک بدوروحیں ہیں، آوارہ کتے ہیں، گدھ ہیں جو صرف نوچنا جانتے ہیں، بیچنا جانتے ہیں۔ ہم مردار کھانے والے کس طرح تم کو چھوڑتے؟ تم کو

کیا خبر ہوگي کہ تم دوڑتی ہوئی اذیت ناک موت کی طرف جا رہی ہو۔

تم اماں بابا کے انتظار میں ہوگی نا؟ کھلونے آ رہے ہیں، کپڑے بھی ہوں گے، مگر تم تک کچھ نہیں پہنچا۔ تم کو تو جنت کے لباس ملنے تھے۔ لیکن تم جاتے جاتے ساری انسانیت پر تھوک گئی ہو۔ تمہاری زندگی، تمہارے خواب، تمہاری معصومیت، تمہارا بچپن، تمہارے سارے رنگ اجاڑنے، روندنے میں پوری انسانیت ملوث ہے۔ جاتے جاتے تم ساری انسانیت کے تن کو برہنہ کرگئی ہو۔ مجھے معلوم ہے خدا نے بچوں کی الگ دنیا نہیں بنائی، پر کیا تمہاری جنت الگ ہے؟ جہاں ساری زینبیں جمع ہیں، جن کو ہر زمانے میں وقت کے شیطانوں نے کچلا ہے۔

گڑیا! اب تم جہاں ہو وہاں کوئی خطرہ نہیں، تم آزاد ہو، کوئی درندہ تم کو نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ جاؤ! کھیلو، ہر زینب کو میرا پیار دینا جو سفاکیت کا نشانہ بنی۔ خدا نے تم کو وہی سب عطا کیا تھا جو ہر انسان کو ملتا ہے مگر ہم نے تمہارے سارےحق غصب کر لیے تھے۔ اب تم سے کبھی کوئی تمہارا حق نہیں لے پائے گا۔ تم نے کبھی ایسا سوچا بھی نہيں ہوگا، تم تو عزت و ناموس کے معنی سے

بھی ابھی پوری طرح آشنا نہيں ہوگی مگر جنگلیوں نے تمہارا بچپن کھا لیا۔

اب میں ہر زینب سے نظریں چرا رہا ہوں۔ ہر مذہب، ہر رنگ و نسل کی زینب ہماری بیٹی ہے، میں سب سے چھپ رہا ہوں۔ تمہارا مجرم کوئی ایک فرد نہیں، پورا معاشرہ ہے، تمہیں ایک فرد نے نہیں پورے معاشرے نے نوچا ہے۔

روز جزا مجھے تمہارا سامنا کرنے کا حوصلہ نہیں۔ تمہارے سوالوں کے جواب کائنات کے کسی انسان کے پاس نہیں۔ تب ہمارا گریبان تمہارے ہاتھوں میں ہوگا، جو چاہے سزا دینا، ہم تم سے اپنی موت تک شرمندہ رہیں گے اور شاید اس کے بعد بھی، میدان حشر تک اور پھر تمہارا سامنا کرنے پر بھی۔ بیٹی! معاف کردینا، ہم شرمندہ نہیں، بہت شرمندہ نہیں… دعا کرنا کہ یہ مٹی ہمیں قبول کرلے۔