رہگذر کےچراغ ہیں ہم لوگ

رہگذر کے چراغ ہیں ہم لوگ
تبسم حجازی/ مرزا صہیب اکرام

اردو ادب کے دو درخشندہ ستارے جن کا آپس میں کوئی جوڑ ملن اور ظاہری تعلق نہیں ۔ ایک جاسوسی ادب کا روشن استعارہ تو دوسرا شاعری میں رنج و الم کا حوالہ ۔
ایک ساغر دوسرا اسرار ۔۔
ایک شاعر ایک جاسوسی ناول نگار ۔۔ دونوں کا انداز جدا ، دونوں کا مقام جدا ، دونوں کے حالات جدا ، لیکن کچھ ایسا بھی ہے جہاں پر آ کر دونوں مل جاتے ہیں ۔ ابن صفی کے اندر چھپے شاعر کے کچھ ایسے اسرار تھے جن سے محمد اختر کے اندر چھپے ساغر صدیقی کے قریب لگتے ہیں ۔
اسرار کے اندر بھی ایک شاعر ہے اور ساغر تو ازل سے شاعر تھا ۔ دونوں کا انداز جدا گانہ دونوں کا میدان منفرد لیکن بات ادب کی ہو تو بڑے لوگوں کی زندگی کی لکیریں کہیں نا کہیں آپس میں مل جایا کرتی ہیں۔ دور سے دیکھا جائے تو ساغر غم و الم کی تصویر تھا اور اسرار کامیابی و عظمت کا مینارا، ساغر گمنام اور لاچار سا انسان تھا اسرار شہرت و بلندی کا مسافر ۔۔
ساغر کے دکھ اس کی شاعری میں نمایاں تھے اسرار کے رنگ اس کے قلم سے عیاں تھے ۔ ساغر ایک ایسا ستارہ تھا جسے کسی نے کبھی روشن نہیں دیکھا اور اسرار کی لو کبھی مدہم نہیں ہوئی تھی ۔
آخر ان دو منفرد حالات کے انسانوں میں کیا مشترک تھا وہ کون سے اسباب ہیں جو زمین و آسمان کو ملاتے ہیں ۔وہ کون سی خوبیاں تھیں جو دونوں میں یکساں تھیں وہ کیا دکھ تھے جو دونوں نے جھیلے ۔وہ کون سا موڑ تھا جس پر ادب کے دو عظیم انسان ملتے ہیں۔
تاریخ کا سینہ چاک کیا جائے تو اسرار احمد الہ آباد کے قصبہ نارہ میں پیدا ہوئے اور ساغر صدیقی نے انبالے میں دنیا کا پہلا دیدار کیا۔دونوں کا شہر الگ دونوں کا مقام الگ لیکن تقدیر کا حسن دیکھیے کہ دونوں کی دنیا میں آمد کا سال 1928 تھا ۔
ماہ و سال میں سال ایک ہونے سے زندگی کی داستان میں کچھ ایک سے حوالے بھی ہوں یہ ضروری تو نہیں تھا ۔
لیکن حالات و واقعات بتاتے ہیں کہ دونوں کو شاعر بننا تھا۔دونوں غزل کے وسیع دامن میں پناہ لینے کے خواب بچپن سے دیکھنے لگے تھے۔
زندگی دارو رسن سے بھی جلا پاتی ہے
چھوڑئیے زلف کے قصہ لب و رخسار کی باتیں
اسرار
زندگی جبر مسلسل کی طرح کاٹی ہے
جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں
ساغر
پیدائش اور ابتدائی دور
1928 سے 1942
ساغرِ صدیقی (پیدائشی نام محمد اختر ) (1928 کو انبالہ میں ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہوئے۔وہ والدین کی اکلوتی اولاد تھے ۔۔ابتدائی تعلیم گھر میں ہوئی ۔ محلے میں ایک بزرگ حبیب حسن رہتے تھے، انہی کے پاس آنے جانے لگے۔ انہی سے پڑھا اور اردو شاعری میں دلچسپی پیدا ہوئی ۔بہت کم عمری میں شعر کہنے لگے اور ناصرحجازی کے قلمی نام سے لکھنا شروع کیا پھر ساغر صدیقی میں بدل لیا۔ روزگار کی تلاش میں وہ امرتسر پہنچے اور یہاں ہال بازار میں ایک دکان دار کے ہاں ملازم ہو گئے جو لکڑی کی کنگھیاں بنا کر فروخت کیا کرتا تھا۔ انہوں نے بھی یہ کام سیکھ‍ لیا۔ دن بھر کنگھیاں بناتے اور رات کو اسی دکان کے کسی گوشے میں پڑے شعر کہتے رہتے ۔مسائل روز گار ، شہر سے دور اپنوں سے پرے ایک دکان کے ٹوٹے فرش پر ساغر صدیقی غزل کو معنی عطا کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ۔
غزل
ایک وعدہ ہے کسی کا جو وفا ہوتا نہیں
ورنہ ان تاروں بھری راتوں میں کیا ہوتا نہیں
جی میں آتا ہے الٹ دیں انکے چہرے سے نقاب
حوصلہ کرتے ہیں لیکن حوصلہ ہوتا نہیں
شمع جس کی آبرو پر جان دے دے جھوم کر
وہ پتنگا جل تو جاتا ہے فنا ہوتا نہیں
اب تو مدت سے رہ و رسمِ نظارہ بند ہے
اب تو ان کا طُور پر بھی سامنا ہوتا نہیں
ہائے یہ بیگانگی اپنی نہیں مجھ کو خبر
ہائے یہ عالم کہ تُو دل سے جُدا ہوتا نہیں
بارہا دیکھا ہے ساغرؔ رہگذارِ عشق میں
کارواں کے ساتھ اکثر رہنما ہوتا نہیں
ساغر
اگر بات ابن صفی یا اسرار احمد کی جائے تو ان کے حالات تو بظاہر الگ نظر آتے ہیں۔
ابن صفی کا اصل نام اسرار احمد تھا ۔ وہ 1928 کو نظیرہ بی بی اور صفی اللہ کے آنگن میں مہکے ۔
ان کی فیملی کائستھ نژاد مسلم تھی ۔ان کے اجداد راجا وشیشر دیال سنگھ نے اسلام قبول کیا تو ان کا خاندان مشرف بہ اسلام ہوا تھا ۔ابن صفی کے والد بوجہ ملازمت نارہ سے الہ آباد آئے اور ایک برٹش کمپنی میں ملازم بھرتی ہوئے۔۔ان کی والدہ نظیرہ بی بی بہت تعلیم یافتہ خاندان سے تھیں جو حکیموں کا خاندان کہلاتا تھا۔انہوں نے اسرار احمد کی ابتدائی تعلیم و تربیت پر بہت توجہ دی۔ اسرار احمد کے کئی بہن بھائی تھے ۔اسرار نے اپنی ابتدائی تعلیم گاؤں کے اسکول میں حاصل کی ۔۔سات سال کی عمر میں پڑھی طلسم ہوش ربا نے ان کے ذہن پر بہت اثر کیا اور ساتویں جماعت سے نثر لکھنا شروع کی اور آٹھویں جماعت میں پہلی نظم لکھی ۔۔ابتدائی دور میں وہ جگر مرادآبادی سے متاثر تھے ۔سیکنڈری تعلیم الہ آباد میں حاصل کی اور ڈی اے وی اسکول سے میٹرک کیا اسی دور میں اشتراکیت سے متاثر ہوکر بھی کچھ شاعری کی ۔
غزل
قفس کی داستاں ہے اور ہم ہیں
اشاروں کی زباں ہے اور ہم ہیں
پئے مرہم ضروری ہے جراحت
صفِ نشتر زناں ہے اور ہم ہیں
کرم ہے یہ بھی میر کارواں کا
غبار کارواں ہے اور ہم ہیں
بچاہی کیاہےجورہزن لوٹ لیں گے
متاعِ نقد جاں ہےاور ہم ہیں
شمارِ زخم ہاۓ دل کہاں تک
حساب دوستاں ہے اور ہم ہیں
کہانی ختم ہوتی ہے نہ شب ہی
وہی معجز بیاں ہے اور ہم ہیں
اسرار

ولین شاعری سے ہجرت تک
1942 سے 1951

ساغر و اسرار دونوں کی شاعری کا آغاز اتفاقیہ طور پر چودہ پندرہ سال کی عمر میں کہا جاتا ہے ۔دونوں اتنی کم عمر میں شعر کہنے لگے تھے کہ ان کے اندر چھپے بڑے شاعر کی جھلک ان کے ابتدائی کلام میں نظر آنے لگی ۔
ساغر نے پندرہ سال کی عمر سے شعر کہنا شروع کردیا تھا لیکن انہیں اصل شہرت 1944ء میں ملی۔ جب امرتسر میں ایک بڑے پیمانے پر مشاعرے کا انعقاد ہوا۔ اس میں شرکت کے لیے لاہور کے بعض مشہور شعرا بھی مدعو تھے۔ ان میں ایک صاحب کو معلوم ہوا کہ یہ لڑکا بھی شعر کہتا ہے۔ انہوں نے منتظمین سے کہہ کر اسے مشاعرے میں پڑھنے کا موقع دلوا دیا۔ ساغر کی آواز میں بلا کا سوز تھا اور وہ ترنم میں پڑھنے میں جواب نہیں رکھتا تھا۔ اس شب اس نے صحیح معنوں میں مشاعرہ لوٹ لیا۔ اس کے بعد امرتسر اور لاہور کے مشاعروں میں ساغر کی مانگ بڑھ‍ گئی۔
اب ساغر نے کنگھیاں بنانے کا کام چھوڑ دیا ۔ گھر والوں کے نزدیک کام چھوڑ کر شعر و شاعری کرنا آوارگی کے مترادف تھا اور ان کی ناراضگی کی باعث ساغر نے کم عمری میں گھر آنا جانا چھوڑ دیا۔
بعض سرپرست احباب کی مدد سے اپنا علم اور صلاحیت بڑھانے کی کوشش کی اور کلام پر اصلاح لینے کے لیے لطیف انور گورداسپوری مرحوم کا انتخاب کیا اور ان سے بہت کسب فیض کیا۔
1947ء میں پاکستان بنا تو انیس سال کی عمر میں امرتسر سے لاہور کی جانب ہجرت کی۔
وہ بلائیں میں تو کیا تماشا ہو
ہم نہ جائیں تو کیا تماشا ہو
یہ کناروں سے کھیلنے والے
ڈوب جائیں تو کیا تماشا ہو
بندہ پرور جو ہم پہ گزری ہے
ہم بتائیں تو کیا تماشا ہو
آج ہم بھی تری وفاؤں پر
مسکرائیں تو کیا تماشا ہو
تیری صورت جو اتفاق سے ہم
بھول جائیں تو کیا تماشا ہو
وقت کی چند ساعتیں ساغر
لوٹ آئیں تو کیا تماشا ہو
ساغر
ابن صفی نے ہائی اسکول کی تعلیم الہ آباد کے ایونگ کرسچین کالج سے حاصل کی ۔یہاں اسرار احمد کی شاعری کو پھلنے پھولنے کا موقع ملا وہ اکثر ہوسٹل کے مشاعروں میں پڑھا کرتے تھے ۔کالج کے پہلے سال تک پبلک میں پڑھنے سے ہچکچاتے رہے لیکن دوسرے سال وہ لٹریری سوسائٹی کے پریزیڈنٹ منتخب ہوئے اور انہیں اپنی شاعرانہ تخلیقات مشاعروں میں پڑھنی پڑیں ۔ان کی نظم ” بانسری کی آواز ” نے مولوی عبد الحق کو بہت متاثر کیا۔ وہ اس سمے اردو فیکلٹی کے ڈین تھے ۔ اُنھوں نے پیشین گوئی کہ اسرار احمد بہت بڑے شاعر بنیں گے۔لیکن جب اسرار احمد پر ابن صفی کا رنگ چڑھا تو وہ اسرار ناروی کے قتل کے لئے ابن صفی سے ہمیشہ ناراض رہے ۔اسی کالج میں مصطفی زیدی بھی ان کے ساتھ پڑھتے رہے ۔۔
اسرار احمد نے پہلے الہ آباد یونیورسٹی جوائن کی لیکن بعد ازاں مختلف وجوہات کی بنا پر اپنی بیچلرز کی ڈگری آگرہ سے لی ۔
1948 میں شاعری کے ڈپارٹمنٹ کے آڈیٹر کے طور پر نکہت پبلیکیشن میں جاب شروع کی۔اس کے بعد وہ بطور ٹیچر بھی کام کرتے رہے اور ساتھ ہی ساتھ اپنی تعلیم بھی مکمل کرتے رہے ۔نکہت پبلیکیشن میں وہ طغرل فرغان اور سنکی سولجر کے نام سے مزاحیہ تحریریں بھی تخلیق کرنے لگے ۔۔1952 میں وہ پاکستان ہجرت کرگئے اور کراچی میں سکونت اختیار کی۔
قیام پاکستان تک دونوں شاعر اپنی پٹاری سے کم سنی میں ہی کچھ ایسی ادبی تخلیقات منظر عام پر لا چکے تھے جو ان کی طبعی عمر اور ریاضت سے بہت بڑھ کر تھیں ۔ایک سال پیدا ہونے دونوں شاعر ایک ہی وقت میں مخلتف حالات یعنی اسرار اسکول کالج سے شاعر بن کر نکلے اور ساغر اس سمے بالکل الگ ماحول یعنی محنت مزدوری اور مروجہ تعلیم اور اداروں سے کوسوں دور ہونے کے باوجود شاعری کے دلدادہ بنے ۔ دونوں کے اندر کا شاعر ان کی محنت شوق اور ریاضت کے ساتھ ساتھ فطری طور پر موجود تھا بس ایک کو جلا اداروں نے بخشی اور دوسرے نے اپنی نمو صاحب علم افراد کی جوتیوں میں تلاش کی۔
مہاتما گاندھی کی موت پر لکھی نظم
٣٠ جنوری کی رات۔
زمیں سے تا بفلک ہے عجیب عالم یاس
زمیں کی کون کہے، بزم قدسیاں ہے اداس
نحیف سی ہے دل کاٸنات کی دھڑکن
یہ رات ہے کہ زمانے پہ ہے سیاہ کفن
ستارے ہیں کہ غمیں کاٸنات کے آنسو
شمیم گل ہے سر گور عود کی خوشبو
سکوت لامتناہی، رندھی رندھی سی فضا
سسک سسک کے یہ دم توڑتی ہوٸی سی ہوا
لویں اداس، چراغوں پے سوگ طاری ہے
یہ رات آج کی، انسانیت پے بھاری ہے
٣١ جنوری کی صبح۔
یہ سرخیاں سی افق میں، یہ پھیکی پھیکی کرن
لہو میں ڈوبا ہوا ہے سحر کا پیراہن
دھواں دھواں سے یہ چہرے، لبوں پے خاموشی
یہ بھیگی بھیگی سی پلکیں، دلوں پے بیہوشی
غموں سے چور مکیں و مکاں کو سکتہ سا
یہ دم بخود سی ہواٸیں، یہ سرنگوں سی فضا
خموشیوں نے اجل سے یہ طرز سیکھا ہے؟
کہ آسماں سے زمیں پر سکوت برسا ہے؟
ہواٶ! چیخو، کہ اک چیخ دلخراش اٹھ
فضاٶ! روٶ کہ انسانیت کی لاش اٹھی
اسرار

عروج
1952 سے 1964

آغاز شاندار تھا اس وجہ سے امید تھی کہ یہ دونوں نام اپنی اپنی صنف میں بڑا نام ہوں گے اور یہ بات ایک دن حقیقت ثابت ہوئی۔ ساغر صدیقی ہجرت کے بعد لاہور پہنچ گئے اور یہاں دیکھتے ہی دیکھتے ساغر کا کلام ہر خاص و عام جگہ مقبول ہونے لگا اور ساغر صدیقی لاہور کے ادبی پرچوں میں چھپنے لگے ۔
ان دنوں دبلے پتلے ساغر پینٹ اور بوسکی کا کرتا پہنے مشاعرے لوٹتے رہے ۔ادبی رسالوں کے بعد پاکستانی فلم انڈسٹری میں ساغر نے بطور گیت کار کام شروع کیا اور وہاں ان کو ہاتھوں ہاتھ لیا جانے لگا۔کامیابی ساغر کے قدم چوم رہی تھی۔
اس زمانے میں ان کے سب سے بڑے سرپرست انور کمال پاشا تھے۔ جو پاکستان میں فلم سازی کی صنعت کے بانیوں میں ہیں۔ انہوں نے اپنی بیشتر فلموں کے گانے ساغر سے لکھوائے جو بڑے مشہور ہوئے۔ کامیابی اور شہرت کا ہما ساغر کے سر پر بیٹھا تو ساغر کے معاشی حالات اتنی جلدی بہتر ہوئے کہ ساغر حکومت کی جانب سے مہاجرین کو دئیے ہوئے گھر کی جگہ ہوٹل میں قیام پذیر رہے۔
1947ء سے 1952 تک ساغر کی زندگی کا زرّیں دور کہا جا سکتا ہے۔ وہ لاہور کے کئی روزانہ اور ہفتہ وار پرچوں سے منسلک ہوگئے۔بلکہ بعض جریدے تو انہی کی ادارت میں شائع ہوتے رہے۔
ساغر نے جس ادبی رسالے کا اجراء کیا اسے ادبی حلقوں میں تو خوب سراہا گیا۔ اور وہ ادبی طور پر بہترین معیار کا تسلیم کیا گیا لیکن کمرشل طور پر فلاپ ثابت ہوا۔شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ ساغر کاروبار کا انسان نہیں تھا بلکہ وہ صرف ایک ادیب تھا۔وہ لکھنے اور پڑھنے کی مشین تھی اسے بزنس کے اصولوں سے واقفیت نہیں تھی۔ایک ادیب تاجر نہ بن سکا یوں ساغر کے پرچے نے دم توڑ دیا ۔
ساغر کی زندگی عروج کے سفر پر تھی دوستوں کی محفلیں تھی فکر معاش سے آزادی تھی ۔قلم اپنی پوری طاقت سے محو رقص و کناں تھا ۔ایک سے بڑھ کر ایک گیت اور غزل لکھی جا رہی تھی۔ ساغر شاعری میں اپنی منزل کی جانب رواں دواں تھے ۔ اس کا وہ وقت جاری تھا جس کی تمنا ہر لکھاری اپنی زندگی میں ضرور کرتا ہے لیکن کامیابی کا سورج جتنا تابناک تھا اس کو گرہن بھی اتنا ہی جلدی لگا۔
تاریخی طور پر کہا جاتا ہے کہ 1958 میں جب مارشل لا لگا اور صدر ایوب نے ملک کی باگ دوڑ سنبھال لی تب صوفی منش شاعر نے اس دور میں ایک نظم لکھی جس کا مصرع تھا۔
کیا ہے صبر جو ہم نے، ہمیں ایوب ملا
جب صدر ایوب کی نظر سے یہ نظم سے گذری تو انہوں ساغر سے ملنے کی خواہش ظاہر کی ۔ان کے حکم پر ساغر کی تلاش شروع ہوئی۔بڑی مشکل اور تگ و دو کے بعد جب سرکاری لوگ دربدر بھٹکتے شاعر تک پہنچے تو ساغر نے گورنر جنرل ہاؤس جانے سے انکار کردیا اور اپنی غزل کا ایک شعر لکھ دیا ۔۔
جس عہد میں لٹ جائے فقیروں کی کمائی
اس دور کے سلطان سے کچھ بھول ہوئی ہے
اس واقعہ میں صداقت کتنی ہے اور اس کے راوی کتنے سقہ ہیں۔اس پر سوال کیے جاتے ہیں لیکن اگر ساغر جیسے دکھوں کے مارے اور زمانے کو حقارت کی نظر سے دیکھنے والے شاعر تک ایسا پیغام کبھی آیا ہوگا تو درویش کا جواب ضرور ایسا ہی ہونا چاہیے کیونکہ ایک صوفی منش انسان جو دنیا و مافیہا سے بے خبر ہو اس سے اور کس جواب کی توقع کی جا سکتی ہے۔
غزل
وہ جو دیوانے سے دو چار نظر آتے ہیں
ان میں کچھ صاحب اسرار نظر آتے ہیں
تیری محفل کا بھرم رکھتے ہیں سو جاتے ہیں
ورنہ یہ لوگ تو بیدار نظر آتے ہیں
دور تک کوئی ستارہ ہے نہ کوئی جگنو
مرگ امید کے آثار نظر آتے ہیں
میرے دامن میں شراروں کے سوا کچھ بھی نہیں
آپ پھولوں کے خریدار نظر آتے ہیں
حشر میں کون گواہی مری دے گا ساغرؔ
سب تمہارے ہی طرفدار نظر آتے ہیں
ساغر
ابن صفی اسرار ناروی اور طغرل فرغان کے نام سے اپنی پہچان بنا چکے تھے۔ وہ مزاح اور شاعری کے باب میں جس رفتار سے کام کر رہے تھے ان کے ابتدائی کلام اور مزاح کی پختگی دیکھ کر ان کے روشن مستقبل کی نوید ضرور کئی بزرگوں نے سنائی ہوگی ۔
لیکن مشیت ایزدی کو کیا منظور تھا یہ اس وقت کوئی نہیں جانتا ہوگا جب ابن صفی طغرل فرغان کے نام سے مزاح لکھا کرتے تھے اور اسرار ناروی کے نام سے نظمیں کہنے لگے تھے ۔
ابن صفی کے دل و دماغ میں الفاظ اور خیالات کا سمندر دوڑ رہا تھا اور اپنی حقیقی منزل کی تلاش میں ہر چیز لکھ رہے تھے ۔لیکن وہ اس صنف کی تلاش میں تھے جس میں وہ اپنے اندر کے شاعر ، ادیب ، مزاح نگار اور نفسیات داں کو ایک ساتھ یکجا کر سکیں۔
1951 کاسال ابن صفی کی زندگی کا تاریخی سال کا جاسکتا ہے ۔۔اس سال انہوں نے ایک ادبی حلقہ میں ہوئی بحث سے متاثر ہوکر اردو میں شفاف اور طبع زاد جاسوسی ادب کی بنیاد رکھنے کا دعویٰ کیا اور اس کام میں ایسے لگے کہ دنیا مدتوں تک اسرار ناروی اور طغرل فرغان سے دور ہو گئی۔
ابن صفی کے نام سے جاسوسی ناول لکھنے کا بیڑا اٹھایا اور اس کے لئے عباس حسینی کے ماہنامہ نکہت میں جاسوسی دنیا کی شروعات کی۔اس کے بعد جو ہوا وہ ادب کی تاریخ میں رقم ہے ۔اور ایک ایسے سفر کی شروعات ہوئی جو ان کی وفات تک مسلسل مائل با عروج رہا ۔۔۔ابن صفی نے دیکھتے ہی دیکھتے عروج حاصل کیا اور ان کی شہرت ہندوستان اور پاکستان میں اردو اور ہندی پڑھنے والے باذوق افراد تک جا پہنچی۔کہا جاتا ہے کہ ابن صفی کی شہرت وبا کی طرح پھیلی تھی۔ ایک زمانہ ان کی ہر آنے والی تخلیق کا منتظر رہتا تھا ۔
ابن صفی نے جہاں اردو جاسوسی ادب کو ایک نئی جہت دی وہاں اسرار ناروی کو پیچھے دھکیل دیا اس دور میں ان کی لکھی شاعرانہ تخلیقات برائے نام رہیں۔
لیکن ابن صفی کے ناولوں کی کئی گئی منظر کشی ان کے انداز کا ادبی پن اور ان کے ناولوں کے عنوانات میں بھی پڑھنے والوں نے موسیقیت کو محسوس کیا۔ ابن صفی نے اسرار ناروی اور طغرل فرغان کو اپنے ناولوں کا حصہ بنا لیا۔ جو شروع میں ان کا قاری شاید سمجھ نہیں سکا تھا لیکن آج اندازہ ہوتا ہے کہ اسرار ناروی اور طغرل فرغان کو ابن صفی نے کبھی بھلایا نہیں تھا ۔بلکہ وہ ہمیشہ ان کے اندر موجود تھے ۔عمران سے حمید تک اور پھر قاسم تک کا سفر طغرل فرغان کا دوسرا جنم تھا اسی طرح اسرار ناروی کو قارئین نے جاسوسی دنیا اور عمران سیریز کے ہر پنے پر محسوس کیا۔
آج کی رات کٹے گی کیونکر ساز نہ جام نہ تو مہمان
صبح تلک کیـا جانیے کیا ہـو آنکھ لگے یـا جاۓ جـان
پچھلی رات کا سناٹا کہتا ہـے اَب کیا آئیں گـے
عقل یہ کہتی ہے سو جاؤ دل کہتا ہے ایک نہ مان
ملک طـرِب کـے رہنے والـو یـہ کـیسی مـجبوری ہـے
ہونٹوں کی بستی میں چراغاں دل کے نگر اتنے سنسان
اُن کی بانہوں کے حلقے میں عشق بنا ہے پیر طریق
اب ایسے میں بتاؤ یارو کس جا کفر کدھر ایمان
اسرارِ

آخری دور
1964 سے موت تک

ملک میں پھیلی کرپشن ، بدعنوانیوں اور فن کی نا قدری نے ساغر کو ذہنی ابتری میں مبتلا کر دیا۔۔انھیں اپنے کام کے معاوضہ کے لئے اکثر پبلشر اور فلم پروڈیوسروں کے در پر بار بار حاضری دینا پڑتی۔ پھر بھی پورا معاوضہ نہ ملتا اور اس ذہنی ابتری اور معاشی بدحالی نے اُنھیں دنیا سے بےزار کردیا ۔
کہا جاتا ہے کہ جہاں دوستوں کا ہجوم ہو وہاں حاسدین بھی روپ بدل کر آس پاس ہوتے ہیں جو موقعے کی تلاش میں رہتے ہیں کہ کب کامیاب انسان کو نقصان پہنچایا جا سکے گا ۔ ایسے ہی ایک برے لمحے میں کسی نام نہاد کرم فرما نے ساغر کو نشے کی جانب دھکیل دیا ۔ساغر کی زندگی نشے کی لت کے بعد بدلنے لگی اور جس قدر تیزی سے عروج آیا تھا اسی سرعت سے زوال آنے لگا اور ساغر کو وقت نے اکیلا کر دیا۔اپنے وقت کا عظیم شاعر ٹھوکروں کے سپرد کر دیا گیا۔
وقت کے بڑے شاعر کو مارفین کی اس لت نے اسپتالوں کے خاکروبوں کا دست نگر تک بن دیا ۔۔نشے اور غربت نے ساغر صدیقی تک اندر زندگی کی رمق کو ختم کر دیا وہ بس اپنوں اور پرائیوں سے بیگانہ ہو کر فقیرانہ انداز میں لاہور کی سڑکوں پر مارا مارا پھرنے لگا۔نا گھر رہا نا اداروں میں تعلق ساغر بس ایک مفلوک الحال انسان بن کر کچرے کے ڈھیر تک پہنچ گیا۔
اس کی اس کمزوری کا فائدہ اغیار اور اپنے دونوں نے خوب اٹھایا جو کبھی ان سے چونی کے بدلے اشعار لکھوا لیتے تو کبھی انھیں مارفین اور چرس دے کر ان سے غزلیں اور گیت لے جاتے، اپنے نام سے پڑھتے اور چھپواتے اور بحیثیت شاعر اور گیت کار اپنی شہرت میں اضافہ کرتے۔
ساغر اس دور میں میلی کچیلی چادر اوڑھے اور کبھی چیتھڑوں میں ملبوس،بکھرے بال ، ننگے پاوں ۔۔۔۔ منہ میں بیڑی یا سگریٹ لیے سڑکوں پر پھرتا رہتا۔
لاہور کا ،انارکلی اور سرکلر بازار ، شاہ عالمی اور داتا دربار جیسی جگہیں ساغر کا عام ٹھکانہ تھیں۔ جہاں وہ رات کو نشے میں دھت مدہوش کہیں کسی سڑک کے کنارے کسی دکان کے تھڑے پر نظر آتا ۔لیکن اس بدتری میں بھی اس کا قلم جادو جگاتا رہا اور وہ کبھی فٹ پاتھ پر بیٹھے لوگوں کو جمع کرکے اپنا کلام سنانے لگتا۔ اس نے زمانے کی ٹھوکروں ، اپنوں کی سازشوں اور وہ زندگی جو اس سے چھین لی گئی اس کی یاد میں بہت اشعار کہے اور ایسے زندہ اشعار کہے جنہوں نے ساغر کو آج تک زندہ رکھا ہے ۔ ساغر نے برے حالات ، غربت ، بھوک اور افلاس و بے چارگی میں وہ تمام الم بیان کیے جو اس نے اپنی جان پر جھیلے ۔
جنوری1974ء میں اس پر فالج کا حملہ ہوا۔ علاج سے فالج سے تو بہت حد تک نجات مل گئی، لیکن اس سے ان کا دایاں ہاتھ‍ ہمیشہ کے لیے بے کار ہو گیا اور طبیعت اور خراب تر ہوتی چلی گئی۔
19 جولائی 1974ء کی ایک صبح زمانے کی ناقدری کا شکار عظیم شاعر کی لاش بے کفن سڑک کے کنارے دکھ درد سے بے نیاز ملی اور اُنھیں میانی صاحب کے قبرستان میں سپرد خاک کر دیا گیا۔
ساغر نے غزل، نظم، قطعہ، رباعی سمیت ہر صنف سخن میں بہت کچھ لکھا لیکن اسے خود انھوں نے چھپوانے کی کوشش نہیں کی ۔ناشروں نے اپنے نفع کی خاطر اسے چھاپ لیا اور ساغر کو معاوضے میں ایک دھیلہ تک نہ دیا۔ اس کی زندگی میں لاہور سے چھ مجموعہ کلام چھپے۔ غم بہار، زہر آرزو (1946ء)، لوح جنوں (1971ء) اور سبز گنبد اور شب آگئی (1972ء) ۔۔ لیکن ساغر کا شکم دو وقت کی روٹی کے لیے ترستا رہا ۔
محفلیں لٹ گئیں جذبات نے دم توڑ دیا
ساز خاموش ہیں نغمات نے دم توڑ دیا
ہر مسرت غم دیروز کا عنوان بنی
وقت کی گود میں لمحات نے دم توڑ دیا
آج پھر بجھ گئے جل جل کے امیدوں کے چراغ
آج پھر تاروں بھری رات نے دم توڑ دیا
ہائے آداب محبت کے تقاضے ساغرؔ
لب ہلے اور شکایات نے دم توڑ دیا
ساغر
اسرار ناروی سے طغرل فرغان اور پھر ابن صفی تک کے سفر میں لاکھوں انسانوں کے محبوب مصنف کے ذہن کو اس طرح تھکا دیا کہ وہ بیمار پڑ گئے ۔ابن صفی کو کسی دوست نے دغا دے کر کسی نشے کا عادی تو نہیں بنایا لیکن جب ابن صفی آسمان کی بلندیوں پر تھے اور ان کی شہرت کا پیمانہ چہار عالم پھیل چکا تھا اس وقت یعنی 1960 میں وہ ایک ذہنی بیماری کا شکار ہو کر لکھنے سے معذور ہوگئے اس بیماری کا دورانیہ تین سال رہا۔۔
اس بیماری کے باعث لکھنے میں کچھ تعطل ضرور آیا۔اور ابن صفی کے اتنے نقال پیدا ہو گئے کہ پڑھنے والے انگشت بدنداں رہ گئے کہ اب کسی دن جب اصلی ابن صفی کا ظہور ہوگا تو پہچان کیسے ہوگی ۔ اتنے عرصے بعد ان نقالوں کے مابین واپسی کے بعد کیا ابن صفی پہلی سی روانی سے لکھ پائیں گے کیا ان کا قلم اپنے سابقہ معیار کا بھرم اٹھا سکے گا۔
لیکن یہ سارے مفروضے اپنے انجام کو پہنچے جب تین سال بعد ابن صفی نے شیزوفرینیا نامی ذہنی بیماری کو شکست دے کر ادب کی دنیا میں دوبارہ دھماکے دار اینٹری دی اور اس کے بعد آخر تک ان کے قلم کی جولانی قائم رہی ۔اس بیچ ابن صفی کا زیادہ زور جاسوسی ناولوں پر رہا اور اسرار ناروی کو موقع کم ہی ملا۔1975 میں ابن صفی نے اپنی فلم دھماکہ کے گیت لکھے اور 1979 میں اپنی والدہ کے انتقال پر نظم ماں لکھی ۔ستمبر 1979 میں ابن صفی کو کینسر جیسی موذی بیماری کی تشخیص ہوئی اور نو مہینہ کینسر سے لڑنے کے بعد شکست کھا کر 26 جولائی 1980 کو اس جہان فانی سے رخصت ہوئے ۔۔ان کا آخری سال اگرچہ بہت تکلیف میں گذرا لیکن ابن صفی نے آخر تک قلم کا ساتھ نہیں چھوڑا۔
ابن صفی نے حمد ،نعت مرثیہ ،غزل اور نظم ہر سخن میں طبع آزمائی کی ۔۔ان کا مجموعہ کلام متاع قلب و نظر پس مرگ 2014 میں شائع ہوا ۔ جس کے کل پانچ حصہ ہیں ۔۔پہلے حصہ میں 43 غزلیں اور ایک نظم ہے دوسرے میں 16 نظمیں اور تیسرے میں چار نظمیں 1965 کی جنگ سے متعلق ہیں ۔ چوتھے حصہ میں 24 نظمیں ہیں اور وہ انعکاس تخیل کے نام سے ہے ۔پانچویں حصے میں غزلیں اور متفرق اشعار ہیں ۔
اے نگارانِ خوبرو آؤ
ہو کے دیکھو تو دوبدو آؤ
یوں نہ دیکھو کہ راہ رو ہوگا
تھی تمھاری ہی جستجو آؤ
کیا سمجھتےہو جام خالی ہے
پھر چھلکنے لگے سبو آؤ
رات ڈھلنےپہ آئےبھی توکیا
گرم ہے وقت کا لہو آؤ
اسرار

ساغر کی شاعری کے رنگ

ساغر صدیقی جدوجہد سے کامیابی اور پھر اس کے بعد دکھ درد اور الم کی عجیب مثال ہے ۔کامیابی کا دور بھرپور مگر محدود رہا۔ غموں کی رات لمبی اور طویل رہی ۔ساغر نے اپنے معاشی عروج و زوال میں اگر کسی چیز کا زوال نہیں دیکھا تو وہ ان کی خداداد شاعرانہ تخلیقات تھیں۔ انہوں نے زمانے کی ناقدری کا شکار ہو کر بھی قلم و کاغذ کی حرمت کا پاس رکھا ۔ ان کے کلام کا جائزہ لیا جائے تو اُنہوں نے اپنے شاعرانہ موضوعات میں تمام کلاسیکل رنگوں اور جدید رجحانات کو سمویا ہے .
تصوف
ساغر کی زندگی کی تلخیاں ان کے کلام میں جا بجا نظر آتی ہیں۔شاعر جب انسانی رویوں سے بے نیاز ہو جاتا ہے اس وقت وہ جو کلام لکھتا ہے اور تب اس کے سامنے فقر اور غربت جو در وا کرتے ہیں وہ ہر کوئی دیکھ نہیں سکتا ۔ ساغر نے بھی غربت اور بد ترین حالات میں درویشی کا دور دیکھا تھا اس لیے اس کے کلام میں تصوف نا ہو یہ کیسے ہو سکتا ہے ۔ ساغر نے زندگی کے ان رازوں سے پردہ اٹھایا ہے جو بڑے تلخ ہیں۔
وہ جانتا ہے کہ دنیا کی محبت اور چاہت ایک سراب جیسی ہے اور روٹی کی کشش انسان کو کیا سے کیا بنا دیتی ہے ۔اور اگر کوئی حقیقی کامیابی پانا چاہتا ہے تو اسے دنیا کی عارضی سرداری اور شان و شوکت کو ٹھوکر مارنی پڑتی ہے ۔
درویشی میں عیاری نہیں چلتی۔یہ تو پورے من سے کیا ہوا سودا ہوتا ہے ۔اس میں انسان ظاہر کو لٹا دیتا ہے اور باطن کو پا لیتا ہے دنیا اس کو فقیری کی نظر سے دیکھتی ہے لیکن اصل میں وہ دنیا کو حقارت کی نظر سے دیکھتا ہے ۔کیونکہ اس پر بھید کھل جاتے ہیں ۔ تمام بڑے شعرا نے تصوف کا راستہ شاعری میں چنا ہے لیکن ساغر کی زندگی کا جائزہ لیا جائے تو ساغر عملی طور پر دنیا سے روٹھ گیا تھا۔اور اسی چیز نے ساغر کو دنیا سے ایسا بیگانہ کیا کہ اس نے وہ کلام لکھا جو انسان کے چہرے سے نقاب اتارتا ہے ۔
حاجت ناؤ نوشی نہیں ہے
فقر بھرا پیمانہ ہو
عابد و زاہد دیکھا ہو
روٹی کا دیوانہ ہو
باغ میں کلیاں سوکھی دیکھیں
دنیا ہے مکاری ہو
چھوڑو خدا کے نام پہ باہو
دنیا کی سرداری ہو
دید پیا کی باہو ایسے
جیسے مصحف قرآں ہو
اس میں بساوں ،اس میں چھپاؤں
آنکھ بنے ہر ارماں ہو
من کا پیالہ بھاری باہو
اور سمندر خالی ہو
ارض و سما کا من میں ڈیرا
من کی موج نرالی ہو
ظلم اور استعماری طاقتوں کے خلاف آواز
ہر شاعر اپنے کلام میں جہاں محبت اور رومان کے عہد و پیمان کرتا ہے اور محبوب کی زلفوں میں پناہ کا متلاشی ہوتا ہے وہیں اس کے پاس بیان کرنے کے لیے اپنے دکھوں کا ایک جہان ہوتا ہے اور وہ اپنے ہی خواب دنیا کو سناتا ہے۔
اپنے مسائل سے نبردآزما حساس شاعر دنیا ، معاشرے اور انسانیت کے مسائل پر بھی بات کرتا ہے ۔ یہی چیز اس کے کلام کو مٹی سے جوڑتی ہے اور اس کو بلند مقام عطا کرتی ہے ۔ جو شاعر اپنے زمانے کا ترجمان نہ ہو اور اس کے کلام کی تاثیر سے اس کے دور کا پتا نا ملے اور مستقبل کے لیے راہ کا تعین نا ہو وہ شاعر کبھی بڑا نہیں بنتا ۔پھر ایک وقت ایسا ضرور آتا ہے کہ اس کا کلام متروک ہو جاتا ہے ۔ ساغر صدیقی نے اپنے غموں کا ذکر بہت کیا ہے اس نے دوستوں اور دشمنوں کی بات کی ہے وہ بتاتا ہے کہ خوشی کے اندر بھی ایک غم چھپا ہے ۔اور زمانہ بے وفا ہے ۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ساغر نے مظلوموں کے غموں دکھوں اور پریشانیوں کا ذکر بھی کیا ہے اور وقت کے مظلوم طبقات کی نمائندگی کرتے ہوئے ظالم کو ظالم کہا ہے ۔
معاشرتی ناہمواری اور سماجی تفریقات پر ساغر ببانگ دہل کہتے ہیں کہ وقت بدلنے والا ہے اب زمانے کو دیوانوں کی قدر کرنی ہوگی اور اہل خرد و جنون کو دھتکارا نہیں جائے گا ۔ اور وہ وقت آنے والا ہے جو عدل و انصاف اور مساوات کا دور ہوگا اور ہر ایک چیز عدل کے ساتھ تقسیم ہوگی ۔ مل مالک اور مزدور برابر ہوں گے ۔ ہاری جاگیر دار سے حق لے گا ۔ محنت کش اپنی اجرت اور عزت دونوں وصول کرئے گا ۔
ایسا بھی وقت آئے گا کون و مکاں تعظیم کریں گے
جو بھی کہیں گے دیوانے وہ اہل خرد تسلیم کریں گے
آپ کے برس ہم گلشن والے اپنا حصہ پورا لیں گے
پھولوں کو تقسیم کریں گے کانوں کو تقسیم کریں گے
اسی طرح ساغر وقت کے حاکموں سے دبنے کی جگہ اپنے بلند لہجے میں صاف گوئی سے کہتے ہیں کہ اگر چمن لٹ گیا ہے تو اس کا گلہ باغبان سے کیا کیا جائے ۔ اگر مظلوم لٹ رہا ہے تو وقت کے حاکم کو جواب دینا ہوگا ۔یہ خلق خدا کی آواز ہے اور خلق کی آواز نقارہ خدا ہوتی ہے جس سے بڑے بڑے شہنشاہوں کے تخت ہل جاتے ہیں اور وہ زمین پر آ گرتے ہیں ۔
ساغر نے سلطانوں کی چوکھٹ پر حاضری کی جگہ قبرستانوں میں مجاوروں کے ساتھ وقت بتانا زیادہ افضل سمجھا تھا اس نے ہر ظالم کو للکارا اور اپنے عہد کے فرماں رواؤں تک یہ بات بار بار پہنچائی کہ اگر غریب کا حق تلف ہو رہا ہے تو تمہارے کردار و افکار اور اعمال کو ہم کٹہرے میں کھڑا کرتے ہیں اور ایسے حاکم وقت کو ہم تسلیم نہیں کرتے ۔
برگشتۂ یزدان سے کچھ بھول ہوئی ہے
بھٹکے ہوئے انسان سے کچھ بھول ہوئی ہے
تا حد نظر شعلے ہی شعلے ہیں چمن میں
پھولوں کے نگہبان سے کچھ بھول ہوئی ہے
جس عہد میں لٹ جائے فقیروں کی کمائی
اس عہد کے سلطان سے کچھ بھول ہوئی ہے
سیاسی شعور
ساغر نے جس وقت ہوش سنبھالا وہ دنیا میں جنگ و جدل کا دور تھا سیاسی تبدیلیوں کو دور تھا ۔قومی اور عالمی سطح پر اتنا کچھ بدل رہا تھا کہ کوئی بھی ذی شعور اور حساس انسان اس کا اثر لئے بغیر نہیں رہ سکتا تھا۔۔اور پھر ساغر نے اس صدی کی سب سے خون ریز ہجرت دیکھی اور انسانی جانوں سے کھیلا جانے والا سیاسی کھیل بھی ۔۔اور ہجرت کا دکھ جھیل کر جس نئے ملک میں پہنچے وہاں ہوتی مسلسل سیاسی اکھاڑ پچھاڑ کو دیکھا اور اس کے اثرات کو محسوس کیا ۔
ان سب واقعات نے ساغر کے سیاسی شعور کو جلا تو بخشی لیکن ساتھ ہی ایک آگ اور تلخی بھی ان کے اندر بھر دی جس کی جھلک ان کے کلام میں نظر آتی ہے ۔ساغر جب انقلاب کی بات کرتے ہیں تو انداز امید افزا نہیں محسوس ہوتا بلکہ ناامیدی اور حالات سے مایوسی نظر آتی ہے جس کی وجہ اس وقت کا سیاسی ماحول اور ان کے دگرگوں حالات بھی تھے ۔ساغر ایسا شاعر ہے جو وقت کی رفتار کو سمجھ لیتا ہے لیکن کسی سیاستدان یا آمر کا حاشیہ بردار نہیں بنتا بلکہ ہر دور کی سیاست پر کھل کر نشتر چلاتا ہے ۔بے رحم وقت اور برے حالات میں جب انسان کی عزت جان مال سب لٹ رہا ہو اس وقت ایک شاعر چپ کیسے رہ سکتا ہے اس لیے ساغر صدیقی نے وہ سب لکھا جو عام آدمی کے دل کی آواز تھی ۔ساغر نے وہ تمام حالات و واقعات بیان کیے کہ کس طرح آج انسان ہی انسان کو ڈس رہا ہے اور عزتیں نیلام ہو رہی ہیں اور مجرمین بے لگام ہو چکے ہیں۔اس نے اپنے قلم سے بتایا کہ معاشرے سے روایات اقدار اور تہذیب کو نچوڑ لیا گیا ہے۔
آج معاشرہ ایک بے رحم بھوت جیسا ہے جو ہر معصوم کو نگل رہا ہے ۔چوکوں چوراہوں میں عصمت عزت خوداری اور اقدار کو اقتدار کی بھینٹ چڑھایا جا رہا ہے ۔ظلم کی ایک طویل رات نے بیٹیوں کے باپ ، ماؤں کے لال ، باپوں کے سہارے اور عورتوں کے سہاگ چھین لیے ہیں ۔ رواداری انصاف مساوات اور حقوق کا نام لینا بھی جرم بن چکا ہے ۔لیکن جب ظلم کی رات طویل تر ہو جائے ، رہبر رہزن بن جائیں اس وقت بیداری ہونا لازم ہے اور اگر تب جو انسان بھی نعرہ حق بلند نہیں کرتا تو ساغر اس کو بھی آڑے ہاتھوں لیتا ہے ۔ساغر نے نام نہاد انقلاب پر بھی تنقید کی ہے اور تمسخر اڑایا ہے کہ ایسا انقلاب بھی بے بیکار اور بے معنی ہے جس کے آنے کی پاداش میں انسان کا خون پانی ہو جائے اور انسان انسان کو روندتا چلا جائے ۔
انقلاب وقت
ایک یہ بھی انقلاب وقت کی تصویر ہے
رہزنی غارت گری بیداد کی تشہیر ہے
عاقبت ہے سر برہنہ آبرو خچر ہے
نعرہ حق و صداقت لائق تعزیر ہے
ایک یہ بھی انقلاب رات کی تصویر ہے
ایک شب اجڑا کسی باںا کی بیٹی کا سہاگ
اڑ گئی پھولوں کی خوشبو ڈس گئے کلیوں کو ناگ
ظلمتوں میں رہے ہیں چاندنی راتوں کے بھاگ
آدمیت ان دنوں اک لاشه تقدیر ہے
ایک یہ بھی انقلاب وقت کی تصویر ہے
زندگی کرتی ہے مجرموں کی تجارت آج کل
چیختی ہے ریگزاروں پر شرافت آج کل
علم کے ماتھے پہ ہے داغ جہالت آج کل
اج بےنام و نشاں اسلاف کی توقیر ہے
ایک یہ بھی انقلاب وقت کی تصویر ہے
پاکستان کے سیاستدان
گرانی کی زنجیر پاؤں میں ہے
وطن کا مقدر گھٹاؤں میں ہے
اطاعت پر ہے جبر کی پہرہ داری
قیادت کے لبوں میں ہے شکاری
سیاست کے پھندے لگائے ہوئے ہیں
یہ روٹی کے دھندے جمائے ہوئے ہیں
بے بنس کر لیو قوم کا چوستے ہیں
خدا کی جگہ خواہشیں پوجتے ہیں
یہ ڈالر میں آئین کو تولتے ہیں
سرائے کے لہجے میں بے ہوئے ہیں
ہے غارت گری اہل ایمان کا شیوه
بھلا یا شیاطیں نے قرآن کا شیوہ
و نوجوانو ! ان کو بچاو
غراروں سے حد چین کو بچاؤ
روما نیت
رومان شاعری کا بنیادی عنصر ہے ۔میر سے غالب تک اور اقبال سے فیض تک ہر کسی کی شاعری میں رومان کی جھلک ضرور نظر آتی ہے خاص کر شاعری کے اس دور میں جب جذبے شدید اور سوچیں محدود ہوتی ہیں اور دنیا کی ساری خوبصورتی محبوب کے رخسار کے ایک تل میں اور زلف کے ایک بل میں نظر اتی ہے ۔لیکن وقت کی رفتار اور حالات جب سوچوں کو نئی جہت دیتے ہیں تو رومان کے معنی بدل جاتے ہیں کبھی یہ قوم کی محبت میں اور کبھی زمانے کے پسے ہوئے طبقہ کی آواز میں نظر آتی ہے ۔
ساغر بھی گل و گلزار کے فسانے لکھنا چاہتا تھا وہ انسانوں سے محبت کرنے والا شاعر تھا ۔اس کے کلام میں رومانیت نا ہو ایسا تو ممکن نہیں تھا ۔۔لیکن شب و روز کی تلخیوں نے ساغر کے اندر سے رومانوی شاعر کو ختم سا کر دیا تھا لیکن کبھی کبھی وہ زندہ دل اور محبت کرنے والا شاعر پھر سے جی اٹھتا تھا ۔ساغر کی شاعری میں رومان لب و رخسار کی باتوں کی جگہ ہمیشہ رنج و الم میں لپٹا نظر آتا ہے ۔۔ حقیقی زندگی کے ناکام عشق نے ان کی شاعری میں جو سوز بھرا ہے وہ بہت دل گداز اور اچھوتا ہے وہ وصل کی بات کرتا ہے تو اگلے ہی لمحہ زندگی کی بے ثباتی کا ذکر بھی آتا ہے لیکن اس غم اور اداسی کے باوجود رومانی شاعری میں استعمال کئے گئے خوبصورت الفاظ اور انداز بیاں اسے عام شاعروں سے ممتاز کردیتے ہیں ۔
ساغر اپنی گزری زندگی اور ان دنوں کی یاد میں بھی شعر کہتا ہے جو وہ جینا چاہتا تھا لیکن حالات کا ستم کچھ ایسا رہا کہ ساغر کو وہ دن میسر تو آئے مگر ان کی مدت بہت قلیل رہی۔ ساغر بھی محبوب کی زلفوں کے قصیدے لکھ سکتا تھا وہ بہاروں کا شاعر تھا اسے پھولوں کی خوشبو سے کبھی محبت تھی ۔ اسی لیے جب وہ رومان لکھتا ہے اور محبت کی بات کرتا ہے تو اس میں بھی ایک درد محسوس ہوتا ہے کیونکہ وہ یہ سب کچھ کھو چکا ہوتا ہے ۔
غزل
وقت کی عمر کیا بڑی ہوگی
اِک تِرے وَصل کی گھڑی ہوگی
کیا خبر تھی کہ نوک ِخنجر بھی
پھول کی ایک پَنکھڑی ہوگی
زُلف بَل کھا رہی ہے ماتھے پر
چاندنی سے صبا لڑی ہوگی
اے عدم کے مسافرو ہُشیار
راہ میں زندگی کھڑی ہوگی
کیوں گِرہ گیسوؤں میں ڈالی ہے
جاں کسی پھول کی اُڑی ہوگی
اِلتِجا کا مَلال کیا کیجے
اُن کے دَر پر کہیں پڑی ہوگی
موت کہتے ہیں جس کو اے ساغرؔ
زندگی کی کوئی کَڑی ہوگی
غزل
بن گئے اشک جفا کی تصویر
کھنچ گئی آج صدا کی تصویر
احتياط دل عاشق لازم
ٹوٹ جاتی ہے وفا کی تصویر
فصل گل اور چٹختے غنچے
تیری مخمور ادا کی تصویر
جگمگاتی ہے غم ہستی کے
رنگ و روغن سے قضا کی تصویر

اسرار ناروی کی شاعری کے رنگ

اشتراکیت
معاشرہ عدم مساوات استحصال اور معاشرتی ناہمواریوں سے پاک ہو کر تمام شہریوں کے لیے یکساں مواقع پیدا کرئے اور قانون کی بالادستی ہو۔اور تمام انسان امارت و غربت سے بالاتر ہو کر ریاست کے معزز شہری ہوں۔ یہی نعرہ اشتراکیت کی بنیاد رہا ہے اور اسرار ناروی کو کم عمری میں اسی انقلاب کی نوید نے متاثر کیا اور انہوں نے اشتراکیت پر خوبصورت کلام تخلیق کیا۔
اسرار ناروی اپنے ابتدائی دور کے مختصر کلام میں انسان دوستی سماج کی بہتری اور ایسے انقلاب کا نقشہ کھینچتے ہیں جس سے پورے معاشرے کی تقدیر بدل جائے گی۔یہاں پر وہ کسی ایک نظام کے خلاف نہیں ہیں یا کسی کی تائید نہیں کر رہے بلکہ ایک معصوم ذہن اس دور میں صرف انسانوں کی بھلائی کا خواہاں ہے اور اسے محسوس ہوتا ہے کہ اشتراکیت ہی دکھوں کا مداوا ہے وہ خود عمل کی زندگی سے ابھی پرے ہے اس لیے وہ اشتراکیت کا نعرہ لگا کر عوام کا بھلا چاہتا ہے ۔
رقصاں ہوں کہ زنجیر کی جھنکار پر یکدم
صد شکر که آماده پیکار نہیں ہوں
پاپوش شہر پارکو دیتا ہوں دعائیں
میں خوش ہوں کہ اب صاحب دستارنہیں ہوں
نذر غلامی
میرے نعروں سے فضاؤں کا کلیجہ کا نیا
میرے سینے میں دھڑکتا ہے بغاوت کا انتظام
میرے ہونٹوں یہ ہے تقریر کے شعلوں کی لپک
میری فطرت سے گریزاں ہے شعورا بہام
باغی کا گیت
سماجی مسائل
اسرار ناروی جو محبت اور رومان کا شاعر تھا جس کے پاس الفاظ کا سمندر تھا جو مزاح کا مضبوط حوالہ تھا لیکن جب اسرار ناروی کے کلام کا مطالعہ کیا جائے تو پہلی چیز انقلاب کی نوید ہے اور ایسی خواہش کا اظہار ہے جس سے زمانے کی تقدیر بدل جائے ۔
اس کے بعد ان کے ہاں سماج کے مسائل کا جا بجا ذکر ہے جیسے طغرل فرغان نے مزاح کے پیرائے میں معاشرے پر طنز کیا اسی طرح ابن صفی نے جاسوسی ادب میں جرائم کا ذکر کر کے کیا ہے اور اسرار ناروی نے بطور شاعر کچھ خوبصورت اور دلفریب خواب دیکھے ۔ اور ساتھ ہی ساتھ معاشرے میں ہو رہی تبدیلیوں کا ذکر کیا ہے۔ اور درپیش حالات و واقعات کو بیان کیا ہے ۔ ان کے ابتدائی دور میں اسلوب جارحانہ تھا ۔اور جذبات میں شدت نظر آتی ہے ۔
وہ معاشرے کے مسائل کو دیکھ کر اپنے اندر کے حساس شاعر کا گلا نہیں گھونٹتے بلکہ وہ اشعار میں دیوانہ وار حق کی بات کرتے ہیں اور انسان کو درپیش مصائب کی وجوہات کا نوحہ لکھتے ہیں اور اس مفاد پرست طبقے کو للکارتے ہیں جن کی وجہ سے عام آدمی کی زندگی میں خوشی کی کوئی رمق باقی نہیں رہتی ۔ وہ کسی بغاوت کے خواہاں نہیں ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنے اندر کے غبار کو بنا مصلحت کے بیان کرنے سے چوکتے نہیں ہیں۔ یہی ان کے کلام کا حسن ہے ۔ ان کے شعری لوازمات بھی مکمل ہیں اور وہ اپنے دور کے بہترین ترجمان بھی ہیں کیونکہ وہ صرف اپنی بات نہیں کرتے بلکہ وہ انسانیت کے دکھوں کے مداوے کی حسرت رکھتے ہیں۔
ہے حکم ترا مٹ جائیں ہم لیکن نہ کسی کو گواہ کریں
جو دل چاہے ہم کرتے رہیں لیکن نہ خودی کی چاہ کریں
جیتے جی مر جائیں بھلے لیکن نہ زباں سے آہ کریں
دیوانگیوں کے شہر بتا ہم کیوں تیری پرواہ کریں
تو روشنیوں کا شہر بھی ہے لیکن یہ بتا ہے کس کے لئے
کیا اس کے لئے جس نے تجھ کو چمکایا ہے دمکایا ہے
اس بیچارے کی جھونپڑی میں ننھی سی کرن بھی تو نہ ملے
دیوانگیوں کے شہر بتا ہم کیوں تیری پرواہ کریں
ہر شخص یہاں فرعون نما، ہر فرد یہاں کا تیغ بکف
اٹھلاتی ضلالت پھرتی ہے ہر وقت ہماری چاروں طرف
بے دینی کا یہ عالم ہے اٹھتے ہیں ہر سو جھوٹے حلف
دیوانگیوں کے شہر بتا ہم کیوں تیری پرواہ کریں
یہ صاحب کے نیچے والے افسر کا بابو بیٹھا ہے
گر بات کرو تو پتا چلے بالکل بے قابو بیٹھا ہے
دولتیاں جھاڑے گا اٹھ کر کرسی پر یابو بیٹھا ہے
دیوانگیوں کے شہر بتا ہم کیوں تیری پرواہ کریں
فلسفہ
اسرار ناروی کی شاعری میں کئی رنگ ہیں وہ اشتراکیت اور انقلاب سے ہوتے ہوئے فلسفہ کی جانب آئے۔ ایک ایسا شاعر جس نے کھلی آنکھوں سے زمانے کو دیکھا ہو جس نے جنگ و جدل کے دور میں کم سنی سے جوانی کی جانب سفر کیا اور جس نے وطن کو تقسیم ہوتے دیکھا ۔ اس نے حاکمانہ دور سے آزادی تک کے دور کا مشاہدہ کیا ہو ۔اس کے کلام میں فلسفہ نا ہو یہ کیسے ممکن ہے۔جب حساس شاعر جنگ عظیم کے شعلوں میں جھلستی دنیا کو دیکھتا ہے اور وہ کھلی آنکھوں سے انسانیت کا جنازہ اٹھتے دیکھتا ہے تب اسے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کی سب سے معزز مخلوق نے کیسے خود ہی اپنی تباہی کا نقشہ کھینچا ہے ۔ دنیا کے دکھ انسانیت کی موت لہو رنگ لاشے وہ سبق ہیں جو ہر حساس انسان معاشرے کے حالات سے کشید کرتا ہے اور دنیا کے تمام حاکمانہ فلسفوں کو آگ اگلتے دیکھ کر سچا شاعر اپنا فلسفہ پیش کرتا ہے جو ماسوائے انسانیت کی ترقی اور جذبات کی ترجمانی کے کچھ نہیں ہوتا۔
شاعر نے زندگی کی حقیقت کو سادہ ترین الفاظ میں بیان کیا ہے کہ انسان کی جوانی کی عمر اور چہرے کی جھریوں کا وقت کس قدر قلیل ہے ۔اور حسن و رعنائی کتنی عارضی ہے ۔ انسان جن چیزوں پر اتراتا ہے وہ تو آنکھ جھپکنے سے پہلے اوجھل ہو جاتی ہیں۔ انسان کو پتا بھی نہیں چلتا کب رنگت بدل جاتی ہے اور چال لڑکھڑانے لگتی ہے اور کمر جھک جاتی ہے ۔
یہ جھریاں مرے شباب کی موجیں
کمر خمیدہ جوانی کے بار سے ہمدم
فسردگی سے عبارت میں نیم باز آنکھیں
خروش موج تبسم کو آہ کیوں کیے
کسی کے لحن حسین کو گمراہ کیوں کہے
مری مجال مئے لالہ گوں کو خون کہوں
وفور عیش کا حاصل ہے ساز کا نغمہ
مسرتوں کا یہ عالم کہ سو نہیں سکتا
جہان عیش و مسرت کا تاجدار ہوں میں
خدائے حسن و جوانی کا شاہکار ہوں میں
روماانیت
اسرار ناروی کے اندر ابن صفی بھی چھپا بیٹھا تھا اور ابن صفی کے ہاں جس قدر لطافت ہے یہ کیسے ہو سکتا تھا کہ اسرار رومان سے دور رہتا ۔اس کا رومان تو کائنات کے ہر رنگ سے تھا اسی لیے اسرار ناروی کے کلام میں جو رومان ہے وہ صرف اپنے محبوب سے نہیں ہے بلکہ وہ اپنے شہر سے دیس تک اور پھر انسان تک اور اس کے علاؤہ وہ کائنات کے سارے حسن کے جلوؤں میں رومان تلاش کرتے ہیں۔ وہ کارخانہ قدرت کے جمال دیکھتے ہیں وہ مناظر سے عشق کرتے ہیں اور فطرت سے محبت کرتے ہیں ان کا پیار صرف جنگل کے لیے نہیں ہے وہ صحرانوردی میں بھی خوشیاں تلاش کرتے ہیں وہ گلوں سے الفت کے دعوے دار ہیں تو ریگزار میں نخلستان کی تلاش بھی جاری رکھتے ہیں۔ وہ کائنات کو خود کی آنکھوں سے دیکھتے ہیں اور ان کو یقین ہے کہ دنیا کو دیکھنے کے لیے اپنی آنکھوں کے سوا کسی سہارے کی ضرورت نہیں ۔ اسی وجہ سے وہ دریاؤں کی طغیانی ، سمندروں کے جوش ، جنگل کے سناٹا ، پہاڑوں کی ہیبت ، صحراوں کی وسعت کو اپنے اندر سمو لیتے ہیں ۔ یہی چیز ان کے مختصر کلام کو بڑا بنا دیتی ہے.
تری مسکراہت سے ترا غیض مجھ کو پیارا
جسے راس آۓ طوفاں اُسے بھاۓ کیا کنارا
یہ حجاب کُش تکلم مری آرزو کا دشمن
مری زندگی کا حاصل ترا سرمگیں اشارہ
جوٹپک پڑےہیں اکثر مری چشم خونفشاں سے
انھیں آنسوں میں چھپ کر تری بےرخی نےمارا
رہِ زندگی میں جونہی مرے پاؤں ڈگمگاۓ
تری آرزو کےصدقے، مجھے دے گئی سہارا
مری سرخرئیوں کےترےہونٹ پاسباں ہیں
یہ تری جبیں کا ٹیکہ مرے بخت کا ستارا
اسرار احمد اور ساغر صدیقی ایک ایسے عہد کا نام ہے جو اپنی اپنی خوبیوں کی بنا پر ادب میں بھلانا آسان نہیں ہوگا ۔ دونوں کی پیدائش سے وفات تک کہیں ایسا لگتا ہے کہ کچھ بھی نہیں ملتا اور کہیں ایسا لگتا ہے جیسے ہر چیز ملتی ہے ۔
دونوں کی پیدائش کا مہینہ ایک ، دونوں کی ہجرت کا دکھ ایک, دونوں کی ادبی زندگی کا آغاز ایک ، دونوں کی کامیابی اور عروج کا وقت ایک ، دونوں کی زندگی میں مسائل کا ظہور بھی ایک ،لیکن یہاں پر اگر غور کریں تو اس کے بعد کے دور میں ساغر کی زندگی میں کبھی ٹھہراؤ اور سکون نہیں ملتا اور اسی طرح ابن صفی کے ہاں اسرار احمد تقریباً دم توڑ دیتا ہے ۔
ساغر زندگی کی آخری دہائی انسانوں سے بیزار رہے اور ان کا خلق خدا سے ناتا ٹوٹ گیا ۔ اسی طرح ابن صفی نے اسرار احمد کے روپ میں دنیا سے مدت تک کنارہ کیے رکھا ۔
دونوں کی شاعری کا بظاہر تقابل بھی نہیں بنتا لیکن دونوں انسان کی بات کرتے ہیں دونوں کبھی محبت کے داعی تھے ۔ ساغر کو ذاتی زندگی نے ہلا ڈالا اور اسرار احمد کو جنگ عظیم اور ہجرت کی خون ریزی نے انسان کا وحشی روپ دکھا دیا ۔ دونوں کے صدمات الگ تھے لیکن دونوں کی شاعری کا محور صرف اپنی ذات کے دکھ نہیں رہے بلکہ دونوں نے انسانیت کی بات کی۔ انسان کی حقیقی ترقی اور کامیابی کی بات کی۔ دونوں نے سنہرے خواب دیکھے ۔ دونوں نے گل و گلزار کے فسانے بھی لکھے اور دونوں نے انسان کا بھیانک چہرہ بھی سماج کو دکھایا ۔
اسرار احمد کا کلام بہت کم سہی لیکن ایسا قطعی نہیں کہ اس کو یکسر نظر انداز کیا جا سکے ۔ بلکہ وہ ابن صفی کی پہچان کے ساتھ ساتھ بطور اسرار بھی زندہ رہیں گے ۔ ان کے کلام میں ایسا حسن ہے جو ان کو مدت تک باقی رکھے گا ۔
اسی طرح ساغر کی قبر پر درویشوں کا رش اور لنگر خانہ تو چلتا رہے گا لیکن اس کے ساتھ اس کی دکھ درد کی مٹی سے اٹھی شاعری اس کو زندہ رکھے گی ۔دونوں شعرا کا کلام ابھی اس طرح دریافت نہیں ہوا جو ان کا حق تھا بلکہ یہ کہا جائے کہ ساغر و اسرار کو ابھی تک ان کی شاعری کے باب میں وہ حق نہیں ملا جو ان کا حق ہے ۔ تو یہ بے جا نا ہوگا ۔
ساغر و اسرار دونوں کو ایک دوسرے سے ملا پانا تو ممکن نہیں ہے لیکن جدا کرنا بھی آسان نہیں ۔دونوں کی زندگی میں واقعات کا ہجوم ہے جو کہیں کہیں ایک دوسرے سے ٹکرا جاتا ہے ۔ اسرار کے نقالوں نے دھوم مچائی تھی اور ان کے ایک روپ کو بیچتے رہے تو ساغر کا اپنا کلام بکتا رہا اور بہت سے نابغہ روز گار شاعر کہلائے جانے لگے ۔
دونوں کا اردو پر احسان ہے کہ دونوں نے توانا شاعری سے اپنے وقت میں اردو ادب کی خدمت کی ۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کے قاری اور آنے والی نسلوں نے ان کا کیا حق ادا کیا ۔ یہ سوال ہر ایک سے ہے کہ کیا آج ساغر جیسے حالات سے ادیب دو چار نہیں اور کیا آج نقال مختلف ناموں سے دوسرے ادیبوں کے لکھے سے لاکھوں نہیں کما رہے ۔ کبھی دوسروں کی لکھی نایاب کتب سے مال و زر بنایا جاتا ہے اور کبھی کسی کے کرداروں کو بیچا جاتا ہے لیکن کیا وارثین تک کبھی ان کا حق پہنچایا جاتا ہے ۔ شعرا اور ادیبوں کے مرنے کا انتظار کیا جاتا ہے تاکہ ان کی موت کے سوگ میں تعزیت کے نام پر چار ٹکے کما لیے جائیں ۔
اسرار احمد کے نام کو کس کس نے کب اور کہاں چھاپا اس کا شمار ممکن نہیں اسی طرح ساغر کی شاعری کا کوئی وارث نا بن سکا بلکہ یہ نام نہاد ادب دوست اس کو بیچ بیچ کھاتے رہے لیکن وقت نے یہ ضرور ثابت کیا کہ زمانے کی اس بےحسی کے باوجود ساغر اور اسرار اپنے فن کے ذریعہ آج بھی دلوں میں زندہ ہیں اور آئندہ بھی چراغ راہ بنے رہیں گے ۔
ہمیں سے منزل فکر و نظر جواں ساغر
ہمیں جو وادی شعر و سخن سے گدرے ہیں