سعادت حسن منٹو۔ایک حقیقت نگار

سعادت حسن منٹو۔ایک حقیقت نگار

مرزا صہیب اکرام

ادب کی تمام اصناف میں سے افسانہ نگاری کو خاص مقام حاصل ہے۔مختصر ترین پیرائے میں بلند ترین بات کہنا افسانہ کہلاتا ہے۔اردو ادب میں افسانے نے اپنے آپ کو بڑی تگ و دو کے بعد منوایا ہے۔داستان گوئی سے ناولوں تک ہر صنف ادب اس وقت ادب میں رائج تھی جب افسانہ نگاروں نے افسانے کو اردو میں متعارف کروایا۔شدید مخالفت اور مخاصمت کے بعد یہ صنف اردو میں عام ہوئی ۔اس صنف کے بانیوں نے اس صنف کو پروان چڑھایا اور اس کو آگے بڑھایا لیکن ایک نام ایسا ہے جسے افسانہ نگاری کی تاریخ میں ممتاز مقام حاصل ہے اور یہ نام ہمیشہ خاص رہے گا۔

سعادت حسن منٹو اردو افسانہ نگاری میں خاص اہمیت رکھتے ہیں۔ ان کا جداگانہ اسلوب اور لفظوں کی کاٹ نے انہیں افسانہ نگاری کا امام بنا دیا ہے۔
سعادت حسن منٹو کا نام ایسا ہے جسے کبھی نہ بھلایا جا سکتا ہے نہ نظر انداز کیا جا سکتا ہے ۔جس کے اسلوب کے سامنے دوسرے تمام اسلوب چھوٹے پڑ جاتے ہیں۔سعادت حسن منٹو اردو افسانہ نگاری کے سب سے پہلے نام نہیں ہیں لیکن وہ افسانہ نگاری کے باب میں سب سے معتبر حوالہ ضرور کہے جاتے ہیں۔ترقی پسند ادب کے عروج میں وہ بنا کسی تنظیم گروہ یا جماعت سے منسلک ہوئے اپنے قلم و قرطاس کی طاقت کی بنا پر کام کرتے رہے۔ ان کے قلم سے اردو ادب کو ایسی نایاب افسانے اور تحریریں جن کے بعد اردو افسانہ نگاری نے اپنے عروج کو چھوا۔اردو افسانہ نگاری کی اس ترقی و ترویج اور اوج کمال تک لیجانے میں سعادت حسن منٹو کا کردار ہمیشہ اہم ترین سمجھا جائے گا ۔

سعادت حسن منٹو کی قبر پر تحریر کردہ یہ تحریر ان کے فن کی عظمت کا اعتراف کرتی ہے۔
“یہاں سعادت حسن منٹو دفن ہے۔ اس کے سینہ میں افسانہ نگاری کے سارے اسرار و رموز دفن ہیں۔
وہ اب بھی منوں مٹی کے نیچے سوچ رہا ہے کہ وہ بڑا افسانہ نگار ہے یا خدا ”

سعادت حسن منٹو 11 مئی 1912کو موضع سمبرالہ، ضلع لدھیانہ میں پیدا ہوئے۔منٹو کشمیر کے پنڈتوں کی ایک ذات ہے۔ ان کے اجداد کشمیر سے حجرت کرکے لاہور آئے تھے۔انہوں نے ابتدائی تعلیم گھر میں حاصل کی۔ 1921ء میں اانھیں ایم اے او مڈل اسکول میں چوتھی جماعت میں داخل کرایا گيا۔ ان کے والد مولوی غلام حسین پیشہ سے جج تھے۔منٹو کی والدہ ان کی دوسری بیوی تھیں ۔ کافی سخت گیر طبیعت کے تھے۔جس نے منٹو کی شخصیت میں بغاوت کا عنصر پیدا کردیا اور تعلیم سے ان کی دلچسپی ختم ہوگئی ۔ میٹرک کے امتحان میں تین مرتبہ فیل ہونے کے بعد انہوں نے 1931میں میٹرک کا امتحان تھرڈ ڈویژن میں پاس کیا۔ زندگی کو لا ابالی ڈھنگ جینا ان کا وطیرہ بن گیا ہے۔انھوں نے چند ساتھیوں کے ساتھ مل کر “انجمن احمقاں” بھی قائم کی تھی۔ انہوں نے ہندو سبھا کالج میں ایف اے میں داخلہ لیا لیکن پھر اسے چھوڑ کر ایم او کالج میں سال دوم میں داخلہ لے لیا- انہوں نے انسانی نفسیات کو اپنا موضوع بنایا۔منٹو کی شادی صفیہ بیگم سے 26 اپریل 1939 کو بمبئی میں ہوں ۔وہ اپنی بیوی سے بہت پیار کرتے تھے ۔ان کی تین بیٹیاں تھیں نکہت ،نزہت اور نصرت تھیں۔

حالات زندگی
منٹو کو کم عمری سگریٹ نوشی اور جوئے لت لگ گئی تھی وہ امرتسر کے ایک ہوٹل میں بیٹھا کرتے تھے جہاں ان کی ملاقات باری علیگ سے ہوئی جس نے ان کی زندگی کو ایک نیا موڑ دیا ۔اس بات کا اعتراف منٹو نے بھی کئی بار کیا۔ باری صاحب نے منٹو کو صحافت کی طرف متوجہ کیا انھیں مساوات اخبار سے منسلک کیا اور انھیں غیر ملکی ادب پڑھنے کی ترغیب دی منٹو نے ان کے کہنے پر وکٹر ہیوگو کی کتاب Last days of a condemned کا ترجمہ “سرگذشت اسیر” کا ترجمہ کیا ۔اس کے بعد آسکر وائلڈ کا ڈرامہ ویرا کا ترجمہ کیا اور مزید روسی افسانوں کے ترجمہ کئے ۔
منٹو کا پہلا طبع زاد افسانہ تماشہ 1934 میں خلق اخبار میں شائع ہوا ۔جو جلیانہ والا باغ کے خونی واقعہ کے پس منظر پر لکھا تھا ۔اس کے بعد 1935 میں منٹو ممبئی چلے گئے ۔وہاں ان کی پہچان بطور افسانہ نگار بن چکی تھی اسی بنیاد پر انھیں پارس نامی ہفتہ وار اخبار میں ملازمت مل گئی پھر وہ مصور کے ایڈیٹر بن گئے۔ پھر سنے ٹون نامی فلم کمپنی کو جوائن کیا۔اس کے بعد منٹو نے آل انڈیا ریڈیو دہلی کی ملازمت اختیار کی وہاں ان کا ساتھ کرشن چندر ، ن م راشد اور اوپندر ناتھ اشک ، اسرار الحق مجاز جیسی نامور ادب ہستیوں سے ہوا۔ ڈیڑھ سال میں منٹو نے وہاں سو سے زائد ڈرامہ لکھے ۔وہاں سے لوٹ کر پھر مختلف فلم کمپنیاں جوائن کی کئی سال فلمستان میں رہے اور آخر میں جب ممبئی ٹاکیز سے جڑے تب 1947 کا دور تھا ہر جگہ ہندو مسلم فساد شروع ہوچکے تھے ۔اس ماحول نے منٹو کو بددل کردیا اس کے بعد یکے بعد دیگرے ان کی دو کہانیوں کو رد کردیا گیا ۔بقول عصمت چغتائی اور اوپندر ناتھ اشک اس بے عزتی کو منٹو جھیل نہیں سکا اور فلم انڈسٹری چھوڑ دی۔ اس دوران ان کی بیوی نے جو پاکستان جاچکی تھی انھیں پاکستان آنے کے لئے اصرار کیا اور منٹو پاکستان حجرت کر گئے ۔
پاکستان پہنچنے کے کچھ ہی دنوں بعد ان کی کہانی “ٹھنڈا گوشت” پر فحاشی کا الزام لگا اور اس کے بعد بھی کئی بار فحش نگاری کے مقدمات چلے اور 3 مہینے کی قید اور 300 جرمانہ بھی ہوا۔ پھر ان کے مرنے کے بعد ان کو ملک کے سب سے بڑے سیویلین ایوارڈ “نشان امتیاز” سے نوازا گیا ۔
اپنے مختصر سے 20 سالہ ادبی سفر میں منٹو نے 270 افسانے، 100 سے زیادہ ڈرامے، کئی فلموں کی کہانیاں اور مکالمے، اور ڈھیروں نامور اور گمنام شخصیات کے خاکے لکھ ڈالے۔
اردو افسانہ کا یہ لازوال مصنف صرف 42 سال کی مختصر عمر میں 18 جنوری 1955ء کو اپنے پڑھنے والوں سے جدا ہوا لیکن ان کے قلم کے شہکار اردو ادب میں ہمیشہ زندہ رہیں گے ۔

منٹو کی تخلیقات کا جائزہ
منٹو اردو افسانہ نگاری کا ایک بڑا نام اور معتبر حوالہ تو ہیں ہی اس کے علاوہ وہ ایک اعلی درجہ کے خاکہ نگار بھی تھے ۔ان کے خاکوں کے دو مجموعہ گنجہ فرشتہ اور لاوڈ اسپیکر شائع ہوچکے ہیں جن۔میں اختر شیرانی ، آغا حشر اور میراجی جیسے ادبی شخصیات سے لے کر نسیم بانو اشوک کمار اور نورجہاں جیسی مشہور فلمی ہستیوں کے خاکہ شامل ہیں۔ یہ خاکہ ان ہستیوں کی شخصیات کا مکمل احاطہ کرنے کے ساتھ ان کے فن کے مختلف نفسیاتی پہلووں کو بھی خوب صورت انداز میں پیش کرتے ہیں ۔
منٹو نے ریڈیو کے لئے سو سے زائد ڈرامہ لکھے جن کے مجموعے تین عورتیں، آو ، کروٹ وغیرہ کے نام سے موجود ہیں ۔اکثر ڈرامہ تفریحی ہیں منجدھار ان کا بہترین ڈرامہ مانا جاتا ہے ۔منٹو بسیار نویس تھے ان کے افسانوں کے ستائیس مجموعہ شائع ہوچکے ہیں ۔

دھواں ، منٹو کے افسانے،نمرود کی خدائی،برقعے،پھندے،شکاری عورتیں،سرکنڈوں کے پیچھے،گنجے فرشتے، بادشاہت کا خاتمہ،شیطان ،اوپر نیچے درمیان میں ،نیلی رگیں،کالی شلوار ،بغیر اجازت ،رتی ماشہ تولہ،یزید، ٹھنڈا گوشت ،بڈھا کھوسٹ ،آتش پارے ،خالی بوتلیں خالی ڈبے ،سیاہ حاشیے،
گلاب کا پھول ،چغد، لذت سنگ ،تلخ ترش، شیرریں، جنازے، بغیر اجازت ۔

منٹو کے کہانیوں کے اہم موضوع سیاست ، تقسیم ، فسادات ،طوائف ،جنس اور فلم انڈسٹری رہی ہے۔ ان کے فنی سفر کی ابتداء ترقی پسند تحریک سے ہوئی اس لئے ابتدائی افسانوں جیسے تماشا ، دیوانہ شاعر ، تھوک ،شغل میں سیاسی ،اشتراکی اور انقلابی موضوعات ملتے ہیں۔
تقسیم کے دوران ہوئی خون ریزی منٹو کی تحریروں پر بہت اثر انداز ہوئی۔ اور فسادات ان کی تحریروں کا اہم موضوع رہے لیکن فسادات پر لکھتے ہوئے وہ جذباتی نہیں ہوتے نہ عوام کے جذبات بھڑکاتے ہیں نہ ان کی تحریروں میں کہیں غصہ اور نفرت نظر آتی ہےوہ نہایت سفاکیت اور معروضیت کے ساتھ منظر کشی کرکے قاری کو انسان پر غور کرنے کی دعوت دیتے ہیں ۔وہ خیر و شر کے مسئلہ نہیں اٹھاتے وہ مختلف قسم کے کرداروں کے قصہ سناتے ہیں اور یہ دکھاتے ہیں کہ کس طرح مذہب اور سیاست انسان کو محدود اور شقی بنا دیتے ہیں ۔ فسادات پر اردو ادب کے بڑے بڑے ادیبوں نے قلم اٹھایا یے لیکن جو توازن اور غیر جذباتی حقیقت نگاری منٹو کی تحریروں میں نظر آتی ہے وہ اور کسی کے یہاں نہیں ملتی۔ کھول دو، ٹھنڈا گوشت ، رام کھلاون، ٹوبہ ٹیک سنگھ اور سیاہ حاشیہ ایسے افسانہ ہیں جنھیں بقول عسکری فسادات پر لکھی دستاویز کہا جاسکتا ہے کیونکہ منٹو انسان کو اپنی اصلی شکل میں قبول کرتا یے شرائط نہیں عائد کرتا۔
سیاست اور فسادات کے علاؤہ منٹو کے افسانوں میں طوائف بھی اہم موضوع رہی ۔ وہ طوائف کا کردار لطف اندوزی کے لئے نہیں لکھتے ۔نہ ہی وہ اس کے لئے ہمدری پیدا کرتے ہیں بلکہ ہمیں طوائف کے اندر چھپی عورت اس کی نفسیات اور کشمکشِ پر لکھتے ہیں ان کے کرداروں میں طوائف ایک نسوانی کردار ہے جو مختلف اقسام کا ہوسکتا ۔ایک ایسی عورت جو طوائف ہوتے ہوئے بھی معصوم ہے یا ایک ماں ہے یا ایسی عورت جو وجود کو قائم رکھنے کی جدو جہد میں لگی ہے ۔دس روپے افسانہ کی سریتا ، گوپی ناتھ کی زینت یا سوگندھی اور سلطانہ جیسے کردار ہیں ۔
منٹو کی کہانیوں کا ایک بنیادی موضوع جنس رہا ہے جس پر انھیں شدید تنقید کا سامنا رہا۔طوائف فلم انڈسٹری ، نچلے طبقہ کی زندگی ان سب کے حوالے سے جنسی اور نفسیاتی تعلقات اور پیچیدگیوں کو انتہائی باریکی سے اپنی تحریروں کو حصہ بنایا۔ اللہ دتا , بلاؤز ،ٹھنڈا گوشت ،دھواں میں جنسی ضروریات کو انسانی عینک سے دکھایا ہے ۔
منٹو افسانہ نگاری کے فن پر مکمل دسترس رکھتے تھے ۔ان کے افسانوں میں پلاٹ عمدہ کردار نگاری کے ساتھ زبان وہ بیان کا اعلی معیار بھی نظر آتا ہے ۔ وہ ایک افسانہ نگار سے زیادہ حقیقت نگار تھے ان کے کردار خیالی نہیں تھے بلکہ سماج کے ہر طبقے اور ہر طرح کے انسانوں کی رنگارنگ زندگیوں کو، ان کی نفسیاتی اور جذباتی تہہ داریوں کے ساتھ، اپنے افسانوں میں منتقل کرتے ہوئے معاشرہ کے مکروہ چہرے کو بے نقاب کیا۔ معاشرہ کی گری ہوئی عورت کو اپنی کہانی میں مرکزیت دی۔ ان پر فحش نگاری کے الزامات لگتے رہے لیکن وہ اپنے موقف پر قائم رہے کہ یہ فحاشی سماج میں موجود ہے اور میں اسی حقیقت کو بیان کررہا ہوں ۔ وہ نہ معاشرے کو بدلنے نعرہ لگاتے ہیں اور نہ خواب دیکھتے ہیں بس نہایت سفاکی سے معاشرے کی نبض پکڑ کر بیماری بتادیتے ہیں۔
ان کے ہاں سماج کے اس طبقے کو انسان دکھایا گیا ہے جس کو معاشرہ کبھی تسلیم نہیں کر سکا منٹو نے طوائف اور طوائف الملوکی دونوں پر لکھا ۔ ان کے ہاں طوائف پہلے ایک عورت ہوتی ہے پھر وہ طوائف بنتی ہے ۔ وہ ایک انسان کو اس کے پیشے سے نہیں اس کے حالات و واقعات اور نفسیات سے جانچتے ہیں ۔ ان کا انداز کہیں بھی ایک واعظ کا نہیں ہے بلکہ وہ اپنے قلم سے وہ تمام پردے نوچ ڈالتے ہیں جن کو جعلی تقدس کی آگ نے چھپا رکھا ہوتا ہے ۔وہ فسادات کی بات کرتے ہیں تو قارئین کو اس مقام تک لے جاتے ہیں جہاں پر وہ خود ہوتے ہیں۔ قاری کے اندر وہ تمام دکھ اور کرب جاگ اٹھتے ہیں جن سے خود افسانہ نگار گزرتا ہے وہ اپنی مٹی کی محبت اور اس پر آگ و خون سے اگی فصل کا نوحہ لکھتے ہیں وہ معاشرتی سنگ دلی بے راہ روی اور ہر تلخ حقیقت کو بیان کر جاتے ہیں۔ منٹو کے قلم سے جو بیان ہوتا ہے وہ کہیں بھی مصلحت کا شکار نہیں ہوتا وہ اپنے قلم کی نوک سے وہ سچ تحریر کرتے ہیں جہاں پر بڑے بڑوں کا قلم جھک جاتا ہے ۔
منٹو کا بے لاگ انداز ، ان کے قلم کی کاٹ ، ان کے اندوز تحریر میں چھپا طنز ، ان کا معاشرے اور سماج پر تبصرہ ان کو اپنے ہم عصروں میں ممتاز حیثیت فراہم کرتا ہے ۔ منٹو اردو افسانہ نگاری کی آن ہیں ان کے اسلوب جیسا اسلوب اردو افسانہ کو کبھی میسر نہیں آتا ۔ان کے ہزاروں موضوعات نہیں ہیں لیکن جتنے بھی ہیں وہ ان کا حق ادا کرتے ہیں۔