سنیما کا پارس۔راجیو ہیرانی

سنیما کا پارس۔۔راجیو ہیرانی

مرزا صہیب اکرام

فلمیں انٹرٹینمنٹ کا سب سے بڑا ذریعہ سمجھی جاتی ہیں۔دنیا بھر میں مختلف فلم انڈسٹریز میں سالانہ ہزاروں فلمیں بنائی جاتی ہیں۔ہالی ووڈ کے بعد جو فلم انڈسٹری دنیا بھر میں آج اپنی پہچان مسلسل بناتی چلی جا رہی ہے وہ بولی ووڈ ہے۔ بولی ووڈ فلم انڈسٹری میں فلمیں بننے کا سلسلہ سو سال سے متجاوز ہو چکا ہے۔اس کی فلمیں اپنا مخصوص رنگ و روپ اور پہچان رکھتی ہیں۔سو سال کے طویل عرصہ میں فلم نے بڑے انداز بدلے ہیں ۔فلموں کو پتلی تماشا سے بڑھا کر معنی عطا کرنے میں فلم کے مرکزی اداکاروں کے ساتھ ساتھ فلم کے ہدایت کاروں کا بھی بڑا ہاتھ ہے ۔ہدایت کار ایک خواب کو تعبیر تک پہچانے کی خواہش میں ایک ایسی دنیا تراشتے ہیں جو ان کے چشم تصور میں کہیں زندہ رہتی ہے ۔وہ پردہ سیمیں پر اپنے تصورات میں ابھرنے والے مدہم سے خیالات کو رنگ و نور سے دیکھنے والوں کے سامنے زندہ کر دیتے ہیں۔
انڈیا میں کئی زبانوں میں فلمیں بنتی ہیں تامل تیلگو ، ملیالم ، بنگالی، پنجابی ، مراٹھی بھوجپوری ، اڑیہ اور گجراتی وغیرہ لیکن ہندی فلم انڈسٹری یا بولی ووڈ کی اہمیت الگ ہے کیونکہ وہ دنیا کی دوسری بڑی فلم انڈسٹری ہے اور ساری دنیا میں اپنی پہچان بنا چکی ہے ۔۔۔آج ہندی فلمیں ان ممالک میں بھی دیکھی جانے لگی ہے جہاں ہندی بولنے والے موجود نہیں ہیں ۔ہندی فلموں کے بیرون ملک پہچنے کی شروعات تو پچاس کی دہائی سے ہوگئی تھی لیکن آج ہندی فلموں کو مڈل ایسٹ سے جرمنی اور میکسیکو سے آسٹریلیا تک پہچانے کا سہرا شاہ رخ اور عامر خان جیسے اسٹارز کے ساتھ چند بڑے ڈائریکٹرز کے سر بھی جاتا ہے۔
انڈین سینما میں بڑے بڑے ہدایت کاروں نے اپنے فن سے فلم کو نئی روشنی سے روشناس کروایا ہے لیکن ایک نام ہے جس نے جدید دور میں جب دنیا موبائل فون اور انٹرنیٹ کے زمانے میں داخل ہو کر پوری رفتار سے بھاگ رہی ہے اس وقت بھی فلم کے مروجہ اصولوں ، اصلاحات اور انداز کو حیات رکھا ہے بلکہ جب انڈسٹری میں فحاشی، بدمعاشی، بے دریغ اور بے سرو پا ایکشن اور حقیقت سے بہت دور کا سینما تخلیق کیا جا رہا تھا اس وقت فلم کو اس کے تمام تر لوازمات یعنی کہانی ، منظر کشی ، سینما ٹو گرافی ، کامیڈی ، جذبات اور برجستہ مکالموں سے تازہ ہوا دی ۔ وہ نام ہے راج کمار ہیرانی کا جنھیں فلموں کا باغی کہا جائے تو غلط نہ ہوگا ۔اس نے فلموں کو ان کی سطح پر جا کر زندہ رکھا اور حقیقی سینما کو لوگوں تک پہنچایا ہے۔ راج کمار ہیرانی کی فلوں میں بُنی کہانی ، اس کے کردار ، ان سے جڑے واقعات و حالات، کہانی کے اندر مکالمہ، کہانی کا فکشن سے تعلق اور حقیقت سے قربت ٫ ہنسی کے طوفان میں ڈھلکتا آنسو ، اور آنسوؤں کے سیلاب سے بر آمد ہوتا قہقہہ ہر چیز کمال درجہ کی ہے ۔راج کمار ہیرانی کو فلم کی طوالت ، اس کا مختصراً پن ،فلم کی موسیقی ، معاشرے سے جڑے روایتی کردار پریشان نہیں کرتے بلکہ وہ معاشرے اور سماج کا چہرہ اسی کے کرداروں کے ذریعہ دیکھنے والوں پر عیاں کرتے ہیں ۔یہی کمال ہیرانی کا سینما پر راج عطا کر رہا ہے ۔
راجو ہیرانی کا جنم 20 نومبر 1962 کو ناگپور میں ہوا۔ ان کا خاندان سندھ پاکستان سے تعلق رکھتا تھا ۔راجو نے اپنی ابتدائی تعلیم اور بی کام ناگپور سے کیا اور پھر پونا فلم انسٹیٹیوٹ سے ایڈیٹنگ کورس کیا ۔انھیں فلم ڈائریکٹ کرنے کا شوق تھا لیکن موقع نہ مل پانے پر ایڈ فلموں میں ڈائیریکشن سے شروعات کی۔
ٹی وی کے پرانے مشہور فیویکول ایڈ میں ہیرانی نے ماڈلنگ بھی کی لیکن فلموں کا شوق انھیں ودھو ونود چوپڑا کے پاس لے آیا ۔2003 چوپڑا نے ہیرانی کی پہلی فلم منا بھائی ایم بی بی ایس کو پروڈیوس کرنے کی ہامی بھر لی اور پھر جیسے کہا جاتا ہے ریسٹ از ہسٹری۔ پانچ انتہائی کامیاب فلمیں جو عوام اور نقاد دونوں میں یکساں مقبول ہوئیں اور ڈھیروں ایوارڈز کے بعد آج راجو ہیرانی انڈیا کے چند بڑے ڈائیریکٹرز میں اپنا نام درج کراچکے ہیں ۔
ہیرانی نے اب تک پانچ فلمیں ڈائریکٹ اور پروڈیوس کی ہیں اور پانچوں انتہائی کامیاب ہوئی اور یہ سب ہی فلمیں مکمل تفریح کے ساتھ معاشرے کے لئے کوئی نہ کوئی میسج بھی لئے ہوتی ہیں اور یہ میسج اس دلچسپ انداز میں دیا جاتا ہے کہ لوگ ہنستے ہنستے یہ کڑوا سچ سن لیتے ہیں ۔

1۔منا بھائی ایم بی بی ایس۔2003
یہ راجیو ہیرانی کی بطور ڈائریکٹر پہلی فلم تھی ۔ فلم عوام میں اور تنقید نگاروں میں یکساں مقبول ہوئی ایک نیشنل ایوارڈ کے علاوہ فلم فئیر بھی حاصل کیا۔ اس فلم نے سنجے دت کے کیریئر کو ایک نئی زندگی دی۔ اس فلم میں پہلی اور آخری بار سنیل دت اور سنجے دت ایک ساتھ آئے ۔
فلم کی کہانی مرلی دھر عرف منا بھائی کی ہے جو گاؤں سے شہر ڈاکثر بننے آتا ہے اور حالات کے چکر میں غنڈہ بن جاتا ہے لیکن اپنے ماں باپ سے جھوٹ کہتا ہے کہ وہ ڈاکٹر ہے ۔۔ڈاکٹر آستھانا جو میڈیکل کالج کا ڈین ہے یہ رازکھول کر منا بھائی کے والد کو ذلیل کرتا ہے۔ منا بھائی انتقاماً اسی کے میڈیکل کالج میں داخلہ لیتا ہے۔۔وہاں اپنی اوٹ پٹانگ حرکتوں کے ساتھ محبت و ہمدردی سے نہ صرف مریضوں کو ٹھیک کرتا ہے بلکہ سارے اسٹاف کا دل بھی جیت لیتا ہے ۔فلم میں بھرپور کامیڈی ہے ، ایموشنز ہیں ، گانے اور ڈانس بھی ہے ۔مجموعی طور پر فلم ایک مکمل پیکج ہے جس میں تشدد اور مارپیٹ کے علاؤہ سب کچھ ہے جو فلم بینوں کو جکڑے رکھتا ہے
ان سب سے بڑھ کر فلم میں ایک پیغام بھی ہے جو لوگوں کو سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ میڈیکل فیلڈ میں دوا کے ساتھ ہمدردی ہونا ضروری ہے ۔عوام سے سوال کیا گیا ہے کہ کیا اسپتال یا حکومت کے قاعدے قانون انسانی جان سے زیادہ اہم ہیں ؟ کیا ڈاکثر کو مریض سے ہمدردی اور محبت کا تعلق رکھنا چاہیے ؟

2۔لگے رہو منا بھائی ۔2006
راجو ہیرانی کی دوسری فلم منا بھائی سیریز کی دوسری فلم تھی جس میں منا بھائی اور سرکٹ کے کردار دوبارہ آئے ۔ اس فلم نے بھی زبردست بزنس کیا اور سال کی تیسری ہائسٹ گروسنگ فلم رہی ۔ چار نینشل ایوارڈ اور بارہ فلم فیئر نامزدگی حاصل کی اور کئی انٹرنیشنل فیسٹولز میں بھی اس فلم کو دکھایا گیا ۔اقوام متحدہ میں دکھائی جانے والی یہ پہلی ہندی فلم ہے۔۔کئی بڑے ملکی اور غیر ملکی تنقید نگاروں نے اس فلم کو سراہا ۔۔
فلم کی کہانی منا بھائی نامی غنڈے کی ہے جو ایک ریڈیو جاکی جھانوی کو پسند کرتا یے اور اسے متاثر کرنے کے لئے مہاتما گاندھی کے بارے میں کچھ معلومات حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔اس دوران مہاتما گاندھی یا باپو اسے اپنے سامنے نظر آنے لگتے ہیں اور اسے بہت کچھ سمجھاتے ییں ۔ان کی رہنمائی میں وہ نہ صرف ناجائز قبضہ کرنے والے بلڈر کو گاندھی کے اہنسا وادی اصولوں سے زیر کرتا ہے بلکہ عام لوگوں کے چھوٹے چھوٹے مسائل کا حل بھی بتاتا ہے۔ وہ اسے گاندھی گیری کہتا ہے ۔اسے باپو خود یہ مشورہ دیتے ہیں اس بات کو لے کر اس کی ذہنی حالت پر شک کیا جاتا ہے لیکن نئی نسل گاندھی ازم سے متعارف اور متاثر ضرور ہوتی ہے۔ اس فلم نے عدم تشدد کے راستہ پر چل کر احتجاج کا جو راستہ دکھایا تھا اس کا اثر فلم کے باہر بھی کئی جگہ نظر آنے لگا ۔کئی مقامات پر لوگوں نے پھول بھیج کر احتجاج درج کروایا۔

3۔تھری ایڈیٹ ۔2009
چیتن بھگت کے ناول پر بنی راجو ہیرانی کی اس فلم نے ملک میں اور بیرون ملک میں کامیابی کے ان گنت ریکارڈ بنائے ۔کئی نیشنل ایوارڈ ، کئی فلم فئیر ایوارڈ کے علاؤہ جاپان اور دیگر ممالک میں بھی اس نے ایوارڈ حاصل کئے ۔۔یہ آج تک کی چند ہائسٹ گروسنگ فلموں میں سے ایک رہی ہے ۔ اس فلم نے پہلی بار انڈین فلموں کے لئے چائنا ، تائیوان کوریا اور جاپان کی مارکیٹوں کا راستہ کھولا ۔
فلم کی کہانی تین دوستوں کی ہیں رانچو ،راجو اور فرحان تینوں سماج کے الگ الگ طبقوں سے تعلق رکھنے والے نوجوان ہیں جو انجینئرنگ کالج میں پڑھنے آتے ہیں۔ راجو اور فرحان عام نوجوانوں کی طرح وہاں ڈگری لینے آتے ہیں تاکہ اچھی جاب حاصل کرسکیں اور والدین کے خواب پورے کریں لیکن رانچو وہاں اپنے شوق سے کچھ سیکھنے آیا ہے اسی لئے بہت سے استاد اور کالج کے پرنسپل اسے پسند نہیں کرتے ۔ رانچو کی شرارتوں کی وجہ سے فرحان اور راجو کئی بار مشکل میں پھنستے ہیں لیکن ساتھ ہی وہ اس سے بہت کچھ سیکھتے بھی ہیں۔ کالج میں چتر نامی ایک اسٹوڈنٹ بھی ہے جو رانچو کو چیلینج کرتا ہے کہ وہ پانچ سال میں کامیاب ہوکر دکھائے گا ۔ پانچ سال بعد وہ ایک کامیاب ایگزیکٹو بن کر لوٹتا ہے ۔ راجو اور فرحان اس کے ساتھ مل کر رانچو تک پہنچتے ہیں تو دیکھ کر حیران ہوتے ہیں کہ رانچو نے اپنے انداز میں زندگی جی کر بھی میں کس طرح شاندار کامیابی حاصل کی ۔
فلم کا بنیادی مقصد تعلیمی نظام کی خامیوں کو اجاگر کرنا تھا کہ ہمارا سسٹم اسٹوڈنٹ کو اسکولوں کالجوں میں کچھ سیکھنے اور تعلیم کو انجوائے کرنے کی جگہ صرف ڈگری کے حصول میں لگا دیتا ہے ۔والدین بنا یہ سوچے یا جانے کہ بچوں دلچسپی اور خوشی کس چیز میں ہے انھیں ڈاکٹر انجنیئر بنے پر زور دیتے ہیں اور انھیں مقابلہ کی دوڑ میں جھونکتے ہوئے یہ بھی نہیں سوچتے کہ اسٹوڈنٹس کو کس حد تک ذہنی دباو برداشت کرنا پڑتا ہے اور نتیجتا ان میں کچھ اہنی جان پر کھیل جاتے ہیں ۔فلم کا یہ میسج صرف انڈین نظام تعلیم کے بارے میں نہیں تھا بلکہ اکثر ایشیائی ممالک کا حال کچھ ایسا ہی ہے اسی لئے جاپان سے چائنہ تک فلم نے دھوم مچادی۔ اس فلم کا اثر اتنا گہرا تھا کہ انڈیا کے ایجوکیشن سسٹم میں کافی کچھ تبدیلیاں لائی گئیں ۔

4۔پی کے۔ 2014
2014 میں آنے والی یہ راجو ہیرانی کی چوتھی فلم تھی ۔تین بلاک بسٹر فلموں کی ہیٹ ٹرک کے بعد ہیرانی نے اس فلم کی پروڈکشن میں بھی ودھو ونود چوپڑا کے ساتھ شراکت کی ۔حسب توقع فلم نے عوام اور کرٹیکس دونوں کو متاثر کیا ۔فلم اپنے وقت کی ہائسٹ گروسنگ فلم تھی اور 700 کروڑ کمانے والی پہلی فلم بنی اور آج بھی ہائیسٹ گروسنگ فلموں کی ٹاپ ٹین لسٹ میں شامل ہے ۔فلم نے کئی نیںشنل اور فلم فیئر اہوارڈ بھی حاصل کئے ۔
فلم کی کہانی ایک خلائی انسان PK کی ہے جو اس زمین پر ریسرچ کے لے آتا یے اور اس کا ریموٹ کنٹرول چوری ہوجاتا ہے۔اسے ڈھونڈتے ہوئے اسے کئی لوگوں سے ملتا یے ۔ جن میں ایک جگو نامی صحافی ہوتی ہے ۔ پی کے اسے بتاتا کہ اس نے کیسے مختلف دھرم اختیار کئے تاکہ خدا بھگوان یا گاڈ سے اپنا ریموٹ واپس لے سکے اور یہ کہ سارے دھرم کے ٹھیکیدار جھوٹ بولتے ہیں۔ انسان کو رانگ نمبر پر بات کروا رہے ہیں۔ تپسوی نامی ایک دھرم گرو کے پاس اپنا ریموٹ دیکھ کر پی کے اسے چیلنج کرتا یے اور اس چیلنج کے دوران جگو کے بوائے فرینڈ سرفراز کا سچ بھی سامنے لاتا یے کہ اس نے جگو کو دھوکا نہیں دیا تھا جگو تپسوی کی باتوں میں اکر اسے غط سمجھ بیٹھی تھی ۔۔اپنا ریموٹ ملنے پر پی کے واپس چلاجاتا یے لیکن لوگوں کو سچ جھوٹ کی پہچان کروا جاتا ہے۔
اپنی ہر فلم کی طرح اس میں بھی ہیرانی نے سماج کے ایک شعبہ پر سوال اٹھائے اور لوگوں کو سوچنے پر مجبور کردیا ۔کیا مذہب کے نام پر ہمیں بے وقوف بنایا جارہا ہے؟؟ رسم و رواج میں پھنس کر ہم خدا تک پہنچنے کی جگہ اس کے ٹھیکیداروں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں کیا پیدا کرنے والے نے ہمارا مذہب طے کیا یا اسے ہم نے خود چنا اورپھر اسی مذہب کی بنیاد پر لوگوں کو جج کرنے لگتے ہیں۔

5۔سنجو۔2018
2018 میں آنے والی راجو ہیرانی کی اس فلم نے ثابت کردیا کہ پچھلی فلموں کی کامیابی کوئی اتفاق نہیں تھی اور پانچ مسلسل بلاک بسٹر فلمیں دینے والا ڈائیریکٹر آج ہندی فلموں کا سب سے بڑا ڈائریکٹر ہے ۔۔اس فلم نے کامیابی میں ہیرانی کی پچھلی فلموں کو پیچھے چھوڑ دیا ۔فلم کی کہانی ، ڈائریکشن اور رنبیر کی اداکاری سب کو تنقید نگاروں نے خوب سراہا کچھ نے جانب داری کا الزام بھی لگایا لیکن مجموعی طور پر تبصرے مثبت رہے اور عام فلم بینوں نے اس فلم کو سال کی ہائیسٹ گروسنگ فلم اور آج تک کی پانچویں بڑی فلم بنادیا ۔فلم سات فلم فئیر ایوارڈز کے لئے نامزد ہوئی تھی۔ان کے علاوہ بھی زی ایوارڈ ، ایشیاء ایوارڈ اور دیگر کئی ایوارڈ کی حقدار بنی۔
فلم ہیرانی کے فیورٹ اداکار سنجے دت پر بنی بائیو پک ہے اور یہ کہا جاسکتا ہے کہ اتنی ایماندارانہ بائیو پک ہندی فلموں میں شاید ہی کبھی بنی ہوگی ۔سنجے دت کی پہلی فلم کی شوٹنگ کے دوران نرگس کینسر سے جھوجھتی رہیں۔ ماں کی بیماری اور پھر موت کے صدمہ کو برداشت نہ کر پانے پر سنجو منشیات کے چکر میں پڑ جاتا ہے ۔اپنی پہلی محبت کھونے کے بعد دوست کملیش کی مدد سے سنجو اس ایڈیکش سے چھٹکارا پاتا ہے اور دوبارہ اپنا کیریر شروع کرتا ہے ۔۔اس بیچ 92 میں ہونے والے فساد سے ڈر کر سنجو ایک گن خریدتا ہے جس کے باعثِ وہ دہشت پسندی کے جرم میں پکڑا جاتا ہے۔سنیل دت کافی مشکلات کے بعد اسے ضمانت پر باہر لاتا ہے اور منا بھائی جیسی کامیاب فلم سے اس کے کیریر کو پھر ایک نئی شروعات دیتا یے۔دہشت گردی کے الزام سے بری ہوکر سنجو ہتھیار رکھنے کی سزا کاٹتا اور آخر کار اپنے گھر لوٹ آتا ہے۔۔
ہیرانی کی دیگر فلموں کی طرح اس فلم میں بھی فلم بین، آنسو اور ہنسی ساتھ ساتھ محسوس کرتے ہیں۔ ہیرانی نے ایک حقیقی کہانی بیان کی اور ساتھ میں میسج بھی دے دیا کہ عدالت سے پہلے ہی مشہور لوگوں کا میڈیا ٹرائل ہوجاتا ہے۔اور یہ بھی سمجھایا کہ ایک صحافی کیا کر سکتا ہے لیکن حقیقت میں کیا کر رہا ہے ۔

6۔ڈنکی۔2023
ہیرانی کی چھٹی فلم آج کے سب سے بڑے سپر اسٹار شاہ رخ کے ساتھ آرہی ہے۔فلم کی کہانی سفر کی کہانی ہے وطن سے دور بہتر مستقبل کی تلاش میں نکل پڑنے والوں کے سفر کی داستان ۔۔۔ انڈسٹری کے سب سے کامیاب ڈائریکٹر اور سپر اسٹار کی جوڑی کے باعث اس فلم سے لوگوں نے بہت زیادہ توقعات رکھی ہیں ۔

ہیرانی کی فلموں کا پیغام
راج کمار ہیرانی کے تخلیق کردہ سینما کا اگر مختصر جائزہ لیا جائے تو ہم ان کو چھ فلموں میں معاشرے اور انسان کی زندگی سے جڑے چھ اہم مسائل کو پاتے ہیں اور اس کے ساتھ کچھ ضمنی چیزیں بھی ۔لیکن ان کی اصل خوبی یہ ہے کہ وہ ہمیشہ فلم میں ہنسی مذاق کامیڈی اور جذبات کے ساتھ کسی بہت بڑے مسئلے کو بھی فلم بینوں کے سامنے پیش کرتے ہیں ۔
منا بھائی ایم بی بی ایس کی بات کریں تو اس فلم کی سب سے بڑی خوبی اس کی کہانی میں بیان کیا گیا ایک انسانی مسئلہ ہے ۔میڈیکل کالجز اور ہسپتالوں میں عام مریضوں کے ساتھ ڈاکٹرز کا رویہ ، وہاں پر مریضوں کی حالت زار ہے ۔علاج معالجے کا مہنگا ہونا ایک الگ ایشیو ہے لیکن اس کے ساتھ اس سے بھی بڑا مسئلہ آج یہ ہے کہ ڈاکٹرز اپنے مریضوں کو ایک پراڈکٹ اور اپنے شعبے کو کاروبار سمجھتے ہیں ۔ ان کے لیے مریض انسان کی جگہ ایک قسم کی پراڈکٹ ہے ۔اسی وجہ سے ان کے ساتھ بہت نامعقول قسم کا رویہ روا رکھا جاتا ہے ۔یہی اس فلم کی کہانی میں سب سے بڑی اور اہم چیز ہے ۔
راجو ہیرانی کی تیسری فلم تھری ایڈیٹس تھی ۔ یہ فلم شعبہ تعلیم کا احاطہ کرتی ہے ۔آج بھی ہمارے معاشرے کا چلن ہے کہ بچہ کے پیدا ہوتے ہی اس کے مستقبل کا فیصلہ کر جاتا ہے کہ یہ اب ڈاکٹر انجینیر پائلٹ یا کچھ اور بنے گا اور پھر وہ بچہ نمبرنگ کی دوڑ میں لگ جاتا ہے ۔کوئی بھی بچے سے نہیں پوچھتا کہ اس کا شوق کیا ہے وہ خود کیا پڑھنا چاہتا ہے۔اس وجہ سے بہت سارے طالب علم ذہنی مریض بن جاتے ہیں بعض تو اس نمبر کی دوڑ کی وجہ سے خودکشی جیسے سنگین اقدام کی جانب بھی چلے ہیں ۔راجو ہیرانی اس اہم مسئلے کی جانب توجہ مبذول کرواتے ہیں ۔

ان کی چوتھی فلم پی کے ہے ۔ یہ فلم انسان خدا اور ناخدا کے بیچ صدیوں سے جاری کشمکش پر مبنی ہے ۔ انسان خدا پر یقین کی بدولت جب زندگی میں خوشیاں و غم دیکھتا ہے تو خدا سے ان دکھوں کا تریاق مانگتا ہے۔لیکن اسی دنیا میں بھگوان اور بندے کے بیچ بھی ایک طبقہ ہے جو بھگوان کا نائب ہونے کا دعوے دار ہے ۔ اس فلم میں اسی بات کی جانب اشارہ کیا گیا ہے کہ لوگ مذہب کے نام پر کس طرح استحصال کا شکار ہوتے ہیں ۔ اور ان کو کس کس انداز میں لوٹا جاتا ہے ۔اور توہم پرستی کی یہ لعنت کیسے انسانوں کو جکڑ کر بیٹھی ہے ۔مذہب جیسے حساس مسئلے کو راج کمار ہیرانی نے کمال خوبی سے بیان کیا ہے ۔
راج کمار ہیرانی کی آخری فلم سنجو ہے جو بظاہر سنجے دت کی زندگی کا احاطہ کرتی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ میڈیا کے کردار اور لوگوں کی زندگیوں سے اس کے کھلواڑ کو دکھاتی ہے کہ کس طرح ایک غلط خبر ایک انسان کی پوری زندگی خراب کر دیتی ہے ۔ غلط اور غیر مصدقہ خبریں آج دنیا بھر کا اہم مسئلہ ہے۔ اس فلم میں اسی جانب اشارہ کیا گیا ہے ۔
اب راج کمار ہیرانی کی فلم ڈنکی آ رہی ہے ۔ یہ فلم غیر قانونی پناہ گزینوں پر ہے ۔ آج ساری دنیا غیر قانونی تارکینِ وطن کے مسائلِ سے جھوجھ رہی ہے ۔ہجرت کے دکھ ، اپنوں کی جدائی ، رزق کی تلاش ، بہتر مستقبل کی تلاش ، غیر قانونی تارکینِ وطن کی آمد اور ان سے حکومتوں اور مافیا کا رویہ ، یہ فلم انہی موضوع کا احاطہ کرتی ہے ۔
راج کمار ہیرانی کی دوسری فلم لگے رہو منا بھائی تھی ، یہ فلم موضوع کے لحاظ سے بڑی دلچسپ اور اہم ترین فلم کہی جا سکتی ہے ۔اس فلم میں عدم تشدد پر بات کی گئی ہے اور یہ فلم گاندھی کے لازوال نظریات کو فلم بینوں کے دلوں پر نقش کرتی ہے ۔
گاندھی کا عدم تشدد کا آفاقی نظریہ آج گاندھی کی وفات کے 75 سال بعد بھی انسان ، حکومتوں اور ریاستوں کی پہلی ضرورت ہے ۔ دنیا میں امن کی کنجی اسی نظریے میں پنہاں ہے۔گاندھی جی کے ان مٹ اصولوں ، لازوال نظریات اور ایک عام انسان کی زندگی پر ان کے اثرات پر بنی یہ فلم بہت بڑی فلم کہی جا سکتی ہے ۔
ہم اگر جائزہ لیں تو راج کمار ہیرانی نے پہلی فلم نے میڈیکل سے متعلقہ مسائل ، دوسری فلم میں عدم تشدد کے نظریہ ، تیسری فلم میں شعبہ تعلیم کے مسائل ، چوتھی فلم میں مذہبی توہم پرستی ، پانچویں فلم میں میڈیا کے منفی کردار کو نشانہ بنایا ہے ، ان کی آنے والی فلم ڈنکی تارکین وطن کے دکھوں پر لکھی کہانی ہے یہ فلم ان کی زندگی کی سب سے بڑی فلم کہی جا رہی ہے ۔راج کمار ہیرانی دنیا سماج اور انسان کو جس نظر سے دیکھتے ہیں وہ اس کو مزید خوبصورت بنا کر چند اہم مسائل اور پیغام ان میں شامل کر کے پر مزاح انداز اور جذبات سے لبریز کر کے دیکھنے والوں تک پہنچاتے ہیں ۔
یہی راج کمار ہیرانی کا سینما ہے ۔