فلک زاہد، اردوادب میں تازہ ہوا کا جھونکا

فلک زاہد، اردوادب میں تازہ ہوا کا جھونکا
مرزا صہیب اکرام

معروف مصنف پاؤلو کوہیلیو اپنی ایک کتاب میں لکھتے ہیں کہ خدا انسان سے شگون کے لہجے میں بات کرتا ہے.

خدا نے ہر انسان میں بے پناہ خوبیاں اور جوہر چھپا رکھے ہوتے ہیں. اور وہ ذات بار بار انسان کو وہ راستہ بھی دکھاتی ہے جس پر چلنا بیشک مشکل ہو، لیکن آخری کامیابی ضرور انسان کا مقدر ہوتی ہے لیکن اگر انسان خود سے آگاہ ہی نہ ہو سکے اور خود پر یقین ہی نہ کر پائے یا صرف اچھے وقت کا انتظار کرتا رہے تو پھر وہ اچھا وقت کبھی نہیں آتا، کیوں کہ اچھا وقت محنت سے لانا پڑتا ہے. اور وہ وقت لانے کے لیے آپ کی زندگی سو سال ہونا ضروری نہیں، بلکہ نیت کا صاف اور ارادے کا مستحکم ہونا لازم ہے.

ایسے ہی ایک کردار کا ذکر میں آج کروں گا، جس نے بہت جلدی خود میں چھپے جوہر ڈھونڈھ نکالے. لکھتے پڑھتے

ہوئے زندگی کے بہت سے مہ و سال بیت گئے. ہرعمر اور ہر رنگ کے لکھاری پڑھے اور دیکھے. ایک سے بڑھ کر ایک بہترین لکھنے والا اردو ادب میں پایا. لکھنے اور پڑھنے کا تعلق آج تک کسی خاص کلاس، رنگ نسل اور کسی خاندانی شجرے سے نہیں جڑا. یہ اللہ کی خاص نعمت ہے جو وہ کسی کو بھی عطا کر سکتا ہے. علم و ادب کا کوئی تعلق کبھی بھی کسی محل سے نہیں رہا، نہ ہی ادب کسی کو عسرت و تنگدستی کی وجہ سے ملا. مرے نزدیک ادب و علم صرف محنت اور شدید محنت سے ملتا ہے. انسان خود کو کتابوں میں فنا کرے تب ہی وہ کہانی نویس یا شاعر و ادیب بن سکتا ہے. مرے ذہن نے کبھی خداداد صلاحیت جیسی سوچ کو نہیں مانا تھا.

پھر ایک دن سوشل میڈیا پر ایک کتاب کا اشتہار دیکھا. کتاب کا نام عجیب لگا. 15 پراسرار کہانیاں اور ٹائٹل پر ایک چھوٹی سی بچی کی تصویر دیکھی. مزید تحقیق کرتا چلا گیا اور حیران و پریشان ہوتا رہا. میری یہ سوچ غلط ثابت ہو رہی تھی کہ ادب خداداد نہیں ہوتا.

فلک زاہد نام کی یہ بچی 12 سال کی عمر سے لکھ رہی ہے. اور میدان بھی چنا تو خوفناک اور پراسرار کہانیوں کا،

جہاں اچھے اچھوں کے پر جلتے ہیں. لیکن ان کا قلم بالکل رواں ہے. پڑھتے ہوئے محسوس ہی نہیں ہوتا کہ کوئی چھوٹی بچی یہ سب تحریر کر رہی ہے. اس وقت فلک 19 سال کی ہیں، اور ان کا نام اور کام کتابی شکل میں سامنے آ رہا ہے.

ادب کی نگری لاہور سے تعلق رکھنے والی یہ بچی بہت کم عمری میں لکھ رہی ہے اور کمال لکھ رہی ہے. تحریر پڑھ کر لگتا ہے کہ کوئی میچور مصنفہ ہیں. مگرحقیقت حال اس کے برعکس ہے. مغربی ادب سے متاثر ہونے کے باوجود خالص اپنا رنگ بنا رہی ہیں اوراپنے انداز کے اندر ہی خود کو آگے کی جانب لے جا رہی ہیں.

اردو اداب میں تازہ ہوا کے جھونکے ہمیشہ آتے رہے ہیں، مگر اتنی جلدی اور اتنی چھوٹی عمر میں بہت کم لکھنے والے اپنی جگہ بنا پائے ہیں. فلک زاہد کی کہانی پڑھنے بیٹھیں تو خوف، سسپنس، رومانس، ڈر، اور جاسوسی سمیت تمام وہ اجزا جو ایک بہترین کہانی کو درکار ہوتے ہیں، پوری آب و تاب کے ساتھ نظر آتے ہیں. ان کی لکھی کہانی پڑھتے پڑھتے انسان اس ماحول کا حصّہ بن جاتا ہے جو بظاہر بہت خوف ناک ہے. ایسی غیر مرئی چیزیں

انسان کو محسوس ہونے لگتی ہیں جو انسانی ادراک سے پرے ہوتی ہیں، تالی بجاتے بھوت، دیوار پر لکھے موت کے الفاظ، اور ایسی باتیں جو صرف ذہن میں ہوتی ہیں، وہ سامنے چلتی پھرتی دکھنے لگتی ہیں. منظر کشی اتنی بہترین ہوتی ہے کہ انسان کبھی خود کو پیرس میں محسوس کرتا ہے اور کبھی لندن میں. پڑھتے ہوئے یہ گمان بھی نہیں گزرتا کہ مصنفہ خود بھی کبھی ان علاقوں میں نہیں گئی ہیں، لیکن وہ اپنے پڑھنے والوں کو ضرور ان راہوں پر لے جاتی ہیں. خالص مغربی طرز تحریر ہونے کے باوجود وہ خود پر کسی دوسرے کا سایہ نہیں پڑھنے دیتیں بلکہ اپنا جداگانہ رنگ بنائے چلی جاتی ہیں. امید اور یقین ہے کہ محنت ایسے ہی جاری و ساری رہی تو یہ بچی جلد اردو ادب کے افق پر چمکے گی.

یہ تحریر فلک زاہد کے فن کے احاطہ تو نہیں کرتی، مگر ان کے فن کو سلام ضرور پیش کرتی ہے. علم پھیلانے سے بڑھتا ہے. فلک نے تو قلم استمعال کر کے کہانی لکھ دی ہے. اب آگے ہمارا فرض ہے کہ اس کہانی کو پڑھیں، جو ہمارے اس ختم ہوتے ادبی ماحول میں روشنی کی کرن ثابت ہو سکتی ہے. اور دوسرے بہت سے نئے لکھنے والوں کو اس سے حوصلہ میسر آ سکتا ہے. تنقید کرنا تو آسان کام ہے،

برائیاں اور کیڑے ہر کوئی نکال سکتا ہے، مگر اس گھٹن اور ادبی سراسیمگی کے دور میں لکھنے کی ہمت کرنے والے مصنف کا حوصلہ نہ بڑھانا ادب کے ساتھ ظلم اور ہماری ذہنی تنگ نظری ہو سکتی ہے، ادب کی کوئی خدمت نہیں.

فلک ہو یا کوئی نیا لکھنے والا، وہ محنت و کوشش سے ایک نہ ایک دن ضرور جگہ بنا ہی لے گا، مگر کیا ہی اچھا ہو کہ ہم طنز کے نشتر صرف ان کی بہتری اور ان کو مزید باہمت کرنے کے لیے چلائیں، تاکہ ہمارے بچے اس ماحول کے اندر آ پائیں، اور اس حبس زدہ ماحول میں تازہ ہوا کا جھونکا بن سکیں، ادب کے اوپر چھائے مہیب سائیوں کو بھگا سکیں.