ماریہ طور! ہم شرمندہ ہیں

ماریہ طور! ہم شرمندہ ہیں
مرزا صہیب اکرام

ہم ا پنے ہیروز سے شرمندہ ہیں کیو نکہ ہمیں ہیروز سے نفرت ہے۔ جب آپ پاکستان کا نام دنیا میں روشن کرتے ہیں، تب ہمیں آپ سے مزید نفرت ہوجاتی ہے کیونکہ پاکستان کا نام دہشت گردی، طالبان اور غیرت کے نا م پر بےغیرتی جیسے اقدامات کے ذریعے دنیا تک پہنچنا چاہیے۔ آپ جیسے کبھی کھیل کے ذریعے، کبھی تعلیم کے ذریعے دنیا کو اس ملک کی طرف متوجہ کرتے ہیں تو اس سے ہمارے عزائم کو ٹھیس لگتی ہے۔

آپ کا پہلا جُرم یہ ہے کہ آپ پاکستان کا روشن چہرہ دنیا کو دکھانا چاہتے ہیں اور دوسرا ناقابل معافی جُرم یہ ہے کہ آپ ایک خاتون ہیں۔ آپ کا کام گھر گرہستی تک محدود ہونا چاہیے۔ آپ کا کام بچے پیدا کرنے کا ہے۔ مگر کبھی آپ کھیل کے میدان میں آجاتی ہیں اور کبھی تعلیم کے میدان میں نمایاں ہوجاتی ہیں۔ ہمیں یہ قبول نہیں ہے کہ پاؤں

کی جوتی سر کی پگڑی بن جائے، اس لیے ہمیں آپ سے نفرت ہے۔ آپ نے سوچا ہوگا کہ آپ سکوائش میں جائیں گی اور پاکستان کے لیے میڈلز لائیں گی تو ہم آپ کو عزت دیں گے؟ مگر آپ سے غلطی ہوگئی کہ آپ نے اپنی بڑی بہن کو سیاست کی سنگلاخ وادیوں میں بھیج دیا۔ انہوں نے سوچا ہوگا کہ وہ پاکستان کی فلاح و بہبود کے حوالے سے بطور سیاست دان کام کریں گی۔ شاید وہ اس سے کامیاب بھی ہوجاتیں مگر اس کی قیمت چکاتے وقت ان کے اندر کا وزیری خون جا گ گیا اور تب وہ ایک بہن بیٹی کے بجائے ہمارے سیاسی ترجمانوں کی نظر میں فاحشہ قرار پائیں۔

ہمیں ہر کامیاب عورت سے نفرت ہے کیونکہ ہم مرد ہیں، یہ معاشرہ ہمارا معاشرہ ہے۔

مجھے نہیں معلوم نعیم الحق سے عمران خان تک جو میسیجز عائشہ گلالئی کو ملتے رہے، ان میں صداقت کتنی تھی اور وہ کتنا عرصہ اس کرب سے گزری ہوں گی اور سیاست کی گلیوں میں اپنے دامن کو بچاتے ہوئے گزری ہوں گی۔ مگر بولنا اور حد سے زیا دہ بول دینا کوئی کم جُرم تو نہیں؟ بولنے سے پانچ منٹ قبل تک وہ تحریک

انصاف کا روشن خیال چہرہ تھیں، ان کی آواز تھیں، بیٹی اور بہن تھیں مگر پھر پریس کانفرنس کے بعد وہ ایک بدکار، فاحشہ اور بد چلن قرار پائیں۔

کہانی یہاں پر ختم نہیں ہوئی بلکہ شروع ہوئی۔ جب عائشہ گلالئی کے الزاما ت کے بعد تحریک انصاف کے فواد چوھدری جیسے لوگ برس پڑے تو وہ بھول گئے کہ ہر مرد ایک عورت سے جنم لیتا ہے، وہ بھی کسی کے بیٹے ہوں گے، ان کی ماں، بہن اور بیٹی بھی اس معاشر ے کا حصہ ہیں جہاں وہ سر بازار کسی اور گھر کی عز ت پر حملہ کرتے ہیں۔ پھر بات آگے بڑھی اور عائشہ گلالئی کے جرم غیرت کے بعد ان کی بہن ماریہ طور پکئی کا ذکر بھی شرو ع کیا گیا۔ اس کے جسم کے نشیب و فراز اور ٹانگوں کو موضوع بحث بنایا گیا۔ ماریہ طور کو بھی سوشل میڈیا کے ذریعے ایک بدکردار لڑکی کے طور پر پیش کیا گیا۔

ماریہ طور کے “جُرم” بھی بہت بڑے ہیں۔ وہ ایک لمبے عرصے تک ایک لڑکا بن کر کھیلتی رہیں اور لڑکوں کے ویٹ لفٹنگ کے مقابلے بھی جیت گئیں۔ چنگیز خان کے نام سے کھیلتے کھیلتے وہ کب تک ا پنی شناخت چھپا پاتی؟ آخر اس کو ایک دن ماریہ طور بننا پڑا۔ وہ سکوائش کے میدان

میں انڈر-15، انڈر-17 اور انڈر-19 چیمپئن بن گئیں۔ عالمی رینکنگ میں 42 ویں نمبر پر آگئیں۔ انہوں نے سوچا ہوگا کہ قوم اس پر فخر کرے گی کہ وہ وزیرستان جہاں سے صرف بموں، گولیوں اور دہشت گردی کے حوالے جڑے ہو ئے تھے، وہ وہاں سے ہوا کے تازہ اور پاکیزہ جھونکے کی طر ح آئی ہیں مگر ماریہ طور سے یہاں پر غلطی ہوگئی۔ وہ بھول گئی کہ وہ لڑکی ہے، ہم نے تو فاطمہ جناح، جن کو مادر ملّت کا خطاب دیا گیا تھا، اُن کی تصویر کتیا کے گلے میں لٹکا کر “بیٹا” ہونے کا ثبو ت دیا تھا۔ ہم نے بے نظیر بھٹو، جن کو دختر مشرق کا لقب دیا گیا، کی مبینہ نیم برہنہ تصاویر اخباروں کی زینت بنا کر باپ اور بھائی ہونے کا ثبوت دیا تھا۔ ہم آج بھی غیرت کے نام پر خواتین کے قتل کو جائز سمجھتے ہیں، آج بھی خواتین خریدی اور بیچی جاتی ہیں۔ آج بھی ہمارے نام نہاد مہذب معاشرے میں ہر گالی کا آغا ز عورت سے ہی ہوتا ہے

کیا آپ نہیں جانتیں کہ ہمیں کھیل کے دوران صرف آپ کی ٹانگیں نظر آتی ہیں؟ آپ مجرم ہیں کیونکہ آپ کی بہن نے سسٹم سے بغاوت کی ہے!

درحقیقت ہم شرمندہ ہیں کیونکہ ہماری کوئی اقدار نہیں اور نہ ہی ہم کسی روایت کے امین ہیں۔ ہم بس سر بازار عزتوں کو نیلا م کرکے ننگا ناچ کرنا جانتے ہیں۔ ہم آپ سے شرمندہ ہیں کیونکہ ہمیں ہیروز سے نفرت ہے۔ آپ کے بنائے ہوئے فلاحی ہسپتال پر حملہ کر کے اور آپ کی عز ت پر الزا م لگا کر ہم آپ کو بتانا چاہتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں آپ کا مقام پاؤں کی جوتی کے نیچے ہے۔

خبردار! آپ ملالہ ہوں، شرمین عبید ہوں، مریم نواز ہوں، بے نظیر بھٹو ہوں، سمیحہ راحیل ہوں، فاطمہ جناح ہوں یا ماریہ طور، جب جب آپ کامیاب ہوں گی، ہم آپ کو بے حیا، بے عزت، بد چلن اور بدکار ثابت کر یں گے کیو نکہ یہ معاشرہ ہمارا معاشرہ ہے۔ آپ کو جھکنا ہوگا کیو نکہ اگر آپ اُٹھ کھڑ ی ہوئیں تو ہم دوہری عقل وا لے نیم مرد کیا کریں گے؟ ہماری بیمار نفسیات پر رحم کھائیں۔ آپ صرف بچے پیدا کر یں اور پیدا کرتے کرتے مر جائیں۔

ہمیں ہر کامیاب عورت سے نفرت ہے کیونکہ ہم مرد ہیں، یہ معاشرہ ہمارا معاشرہ ہے۔