ماسک

اکیسویں صدی کا نیا تحفہ ۔۔ماسک
مرزا صہیب اکرام

شہر کا شہر صلیبوں سے سجا ہے اب کے
ان کی آمد کا ہر انداز نیا ہے اب کے

دنیا میں پہلا ماسک یا مکھوٹا کب پہنا گیا اس پر بہت کچھ لکھا اور کہا جاتا رہا ہے صدیوں کا سفر طے کرکے اور ہزاروں روپ بدل کر ماسک کا وجود آج بھی باقی ہے ۔ مگر کرونا وائرس کے بعد جو ماسک آج چھ ارب انسان پہننے پر مجبور ہیں ۔ ان کا عام انسان سے واسطہ اس سے پہلے نہ ہونے کے برابر رہا ہے ۔
انسانی تاریخ کا جائزہ لیں تو منہ کو ڈھانپنے والے مکھوٹے یا ماسک جو جنگی ادوار کے حوالے سے ملتے ہیں وہ 30000 سے 40000 سال پرانے ملتے ہیں ۔ لیکن باقاعدہ ماسک جو روایات سے اگے بڑھ کر دریافت ہوئے ہیں وہ 9000 ہزار قبل سے ہیں یہ پیرس اور یروشلم کے میوزیمز کی زینت ہیں۔ اسی طرح قدیم رومن ڈراموں کی تاریخ کا جائزہ لیں تو وہاں بھی ماسک کا ثبوت ملتا ہے۔ اسی طرح ماسک مختلف شکلوں میں مذہبی روایات کا بھی حصہ رہا ہے ۔ جیسے یہودی پوریم کے تہواروں میں کارنیوالسک ماسک کا استعمال شاید 15 ویں صدی کے آخر میں شروع ہوا ، حالانکہ کچھ یہودی مصنفین کا دعوی ہے کہ یہ ہمیشہ یہودی روایت کا حصہ رہا ہے۔
اور تاریخ کے بعض پنوں میں ماسک بطور علاج بھی پہنا جاتا رہا ہے۔شمالی امریکہ کے اروکوئز قبائل علاج کرنے کی غرض سے ماسک استعمال کیا کرتے تھے۔
2019 کے دسمبر میں جب دنیا کو کرونا وائرس نے اپنی لیپٹ میں لیا اور ساری دنیا ایک بے یقینی کیفیت سے دوچار ہوئی ۔ اس کے بعد انسان کو ایک ایسے جراثیم سے لڑنا تھا جو انسانی آنکھ نا دیکھ سکتی تھی نا اس کے نام سے واقف تھی نا کوئی یہ جانتا تھا کہ بیماری، یہ قاتل کس طرح حملہ کرتا ہے ۔
انسان نے قدیم دور سے اج تک ہزاروں دشمن دیکھے۔ لاتعداد جنگوں میں کروڑں انسان لقمہ اجل بنے۔ بیماریوں اور وباؤں نے دنیا کے بہت سے حصے اور بستیاں نقشے سے مٹا ڈالیں۔لیکن جس خوف بربریت وحشت اور ڈر کا منظر کرونا وائرس نے پیدا کیا وہ انسانی آنکھ نے اس سے قبل نہیں دیکھا تھا۔۔
انسانی تاریخ کا جائزہ لیں تو دنیا کے واقعات کو بعد از مسیح اور قبل از مسیح کے حساب سے بیان کیا جاتا ہے ۔ اس کے بعد دوسری تقسیم انسان نے جنگ عظیم کے بعد دیکھی کیونکہ اس واقعے نے ساری دنیا کو بدل ڈالا تھا اس کے بعد 9/11 کا سانحہ دنیا کے لیے سوہان روح بنا رہا۔ ان تمام واقعات نے انسان کو مختلف گروہوں زبانوں اور جغرافیائی طور پر منقسم کر دیا ۔اج کرونا نے یہی کیا ہے اس نے دنیا کو قبل از کرونا اور بعد از کرونا کے دور میں بانٹ دیا۔ کرونا ایک ایسی فصیل بن کر آیا جو ایک دن ختم تو ہو جائے گی مگر اس کے اثرات انسانیت پر طویل عرصہ تک رہیں گے ۔
کرونا کی وبا کے دوران انسان نے مختلف اقسام کی ادویات ، تحفظات اور ہیلتھ کئیر پریکٹس کو اپنایا مگر جس چیز نے ہر انسان کو اپنا اسیر بنایا وہ ماسک ہے۔
کوئی ہاتھ بھی نہ ملائے گا جو گلے ملو گے تپاک سے
یہ نئے مزاج کا شہر ہے ذرا فاصلہ سے ملا کرو
جنوری 2020 کو یاد کیا جائے تو انسانی تہذیب میں آداب اخلاق کے پیمانے سلام سے شروع ہو کر مصافحہ تک جاتے تھے پھر اس کے بعد محبت و مودت کا اظہار بغل گیر ہو کر کیا جاتا اور بعض ملکوں کی روایات میں ایک دوسرے کے گال پر چوما بھی جاتا۔ بچہ اپنا ہوتا یا پرایا اس کو گود میں اٹھایا جاتا اس کا منہ چوما جاتا۔ ادبی اصطلاحات میں اور احترام کے معاملات میں محبوب کی قدم بوسی کی جاتی ہے اور والدین کے ہاتھ کا بوسہ لیا ہے۔
وقت نے اس قدر مجبور ہو کر انداز وفا بدلا ہے کہ آج انسان انسان کو دور سے دیکھ کر راستہ بدل دیتا ہے آج دنیا میں تہذیب و اخلاق کے نئے کلیے اور پیمانے رائج ہونے لگے ہیں ۔ ریاستیں خود اپنے شہریوں کو ایک دوسرے سے دور کرنے کے لیے سزا و جزا کی حد تک جا رہی ہیں ۔ صدور اور وزرائے اعظم اپنا چہرہ چھپائے عوام سے گزارش کرتے نظر آتے ہیں کہ عوام ماسک قرور پہنیں ۔ پردہ نشین تو پہلے ہی پردہ میں تھے مگر وہ طبقہ جو ساری زندگی منہ ڈھانپنا انسانی حقوق کی پامالی سمجھتا رہا وہ بھی اب ماسک کی افادیت کو بیان کرتا نہیں تھکتا ۔
کھینچ لی تھی اک لکیر نارسا خود درمیاں
فاصلہ در فاصلہ در فاصلہ ہونا ہی تھا
کرونا کی وبا کو سال بھر سے زیادہ وقت ہو چکا ہے ۔ اس میں بہت زیادہ مشکل اور کچھ اسان ادوار گزر گئے مگر ایک چیز ایسی رہی جو ایک دن بھی واپس نہیں ہوئی وہ ماسک کا استعمال ہے ۔ آج دنیا میں سب سے بڑا مسلہ لوگوں کو ماسک پہننے کا قائل کرنا بن گیا ہے ۔ حالات یہ ہیں کہ جہاں جہاں زندگی کسی حد تک معمول پر آ چکی ہے وہاں شادی بیاہ اور دیگر تقریبات کا آغاز ہو چکا ہے مگر لوگ خوشی اور غمی کی تقریبات میں بھی ماسک کے ساتھ شرکت کرتے ہیں ۔ شادی کا منظر ہسپتال جیسا لگتا ہے ۔لوگ ایک دوسرے سے دور دور نظر آتے ہیں ان کی کوشش ہوتی ہے کہ ملنے سے پرہیز کیا جائے اور اکثر شادیوں میں اب کارڈز پر ماسک کی پابندی بھی دعوت کے ساتھ لکھی ہوتی ہے ۔
مہذب دنیا میں کسی انسان کا دوسرے سے منہ چھپا کر ملنا ایک وقت میں معیوب تصور کیا جاتا تھا بلکہ خواتین کے حوالے سے آوازیں اٹھائی جاتی تھی کہ انسان کا منہ ڈھانپنا شخصی آزادی کی خلاف وزی ہے ۔ چہرہ کھلا رکھنا حسن جمال کی وضاحت بھی کہا جاتا اور بنیادی حق بھی ۔ ماسک کا استعمال صرف طبی اداروں اور کچھ مخصوص شعبوں تک محدود تھا ۔ اس وبا سے پیشتر عام لوگ تو اس نے نام تک سے واقف نہیں تھے ۔ اور جب یہ انسانوں کے سر پڑا تو کچھ مدت تک تو ہر کوئی اس کو وبال جان سمجھتا رہا ۔ لوگ ہمہ وقت اس کو پہن کر درست کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ۔ ہر انسان کو ایسا لگتا جیسے سب لوگ ایسے دیکھ رہے ہیں۔ شروع میں ماسک کا استعمال اتنا عجیب تر محسوس ہوتا تھا کہ لوگ دلی طور پر شرمندہ ہوتے تھے ۔ مگر آہستہ آہستہ یہ معاشرے میں اس طرح رچ بس گیا جیسے یہ انسان کی پہلی اور بنیادی ضرورت ہو۔ لوگ محفلوں میں اور بازاروں میں بلا جھجک بنا ماسک کے انسان کو خود سے دور رہنے کی تلقین کرنے لگے ہیں ۔ اب ماسک اتنا عام اور ضروری ہو گیا ہے کہ ہر ایک کی جیب میں موبائل کے ساتھ سینٹائزر اور ماسک ہونا لازم ہو گیا ہے ۔ دکانوں ،ریسٹورانوں اور اسکولوں سمیت تمام اداروں میں جلی حروف میں داخلہ صرف ماسک کے ساتھ مشروط کر دیا گیا ہے ۔ انسان کو اپنے وجود کا تحفظ اس اہم ننھے سے ماسک میں نظر آتا ہے ۔
ماسک چہرے کو ٹھوڑی سے ناک تک اپنے پیچھے چھپا لیتا ہے ۔۔ سانس کے ذریعے جو وائرس انسان کے جسم میں داخل ہو کر اس کو نقصان پہنچا سکتا ہے منہ کا دھانہ اور ناک کو کور کرکے رکھنے سے اس وائرس سے بچاؤ کافی حد تک ہونا ممکن ہے ۔ کل تک دنیا میں چہرہ دکھانا ہی سب کچھ سمجھا جاتا تھا مگر وقت ایسا بدلا ہے کہ آج چہرہ چھپانا سلامتی کی علامت بن چکا ہے
دنیا میں آنے والا یہ بدلاؤ انسان کو کہاں تک لے کر جاتا ہے اور کسے معلوم انسان کب اس سحر سے باہر نکلتا ہے ۔۔ کیا کبھی دوبارہ انسان اس مقام ہر واپس جا سکے گا جب انسان کو ایک دوسرے سے ملنا ملانا اور گلے لگنا اچھا سمجھا جاتا تھا ۔
اتنا بھی نا امید دل کم نظر نہ ہو
ممکن نہیں کہ شام الم کی سحر نہ
امید ہے کہ وہ وقت دوبارہ ضرور آئے گا جب دنیا اس وبا کے سحر اور تباہ کاریوں سے نکل آئے گی اور زندگی ہمیشہ کی طرح رواں ہو جائے گی مگر جو وقت اور جو طور طریقے دنیا کو بحالت مجبوری اپنانے پڑے ہیں اور اپنی زندگی اور انداز زندگی کو یکسر بدلنا پڑا ہے کیا انسان کبھی اس کو فراموش کر سکے گا ۔ انسان کبھی سوچے گا کہ اس سال کو جیسے جیا تھا کیا وہ حقیقت بھی تھی ۔ انسان اپنی بے بسی کو بھول پائے گا ۔ انسان جب کسی سے بغل گیر ہوگا اور بنا ماسک کے گھر سے باہر نکلے گا اس کو کیسا محسوس ہو گا ۔
یہ تمام دود جو مشکلات اور مصائب سے بھرا تھا جس میں انسانیت کے تمام اصول ملیا میٹ ہو گئے انسان اس سے گزر ضرور جائے گا مگر یہ خوف و دہشت کے سائے یہ موت کے سناٹے یہ ویرانیاں مدتوں تک فراموش نہیں ہوں گی ۔ ماسک ایک دن مکمل طور پر اتر جائے گا اور اس کی ضرورت اور افادیت ختم ہو جائے گی۔مگر یہ بھولے گا کبھی نہیں ۔ آج کا انسان کبھی بھی اس دور کو ذہن سے جھٹک نہیں سکے گا وہ بچے جنھوں نے کم عمری میں یہ خوفناک دور دیکھ لیا ہے وہ ان کی یاداشت میں ساری عمر کے لئے محفوظ ہوگیا ہے۔انسان کو زندگی میں کسی نہ کسی موڑ پر یہ لمحات یہ احتیاطی تدابیر اور سراسیمگی کا ماحول یاد آتا رہے گا ۔