مستنصر حسین تارڑ

مستنصر حسین تارڑ

تبسم حجازی

ادب میں بہت ہی کم نام ایسے ہوتے ہیں جو کسی صنف کے بانی کہلاتے ہیں یا کوئی صنف ان کے نام سے جانی جاتی ہے۔ابن صفی جاسوسی ادب کے بانی ہیں۔اسی طرح اردو نثر کا سہرا کسی اور کے سر ہے۔ہر صنف کا بانی ہونا یا اس صنف میں اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر نئے رنگوں اور اسلوب سے آشنا کرنا بڑے اعزاز و افتخار کا مقام ہوتا ہے۔
سفر نامہ نگاری اردو ادب میں ایک اہم صنف ہے۔اس میں بہت سے لکھاریوں نے اپنے قلم کا جلوہ بکھیرا ہے۔محمود نظامی سے آج تک بے شمار لکھنے والوں نے سفر نامہ نگاری میں اپنے کمالاتِ جوہر دکھائے ہیں۔لیکن ایک نام ایسا ہے جو اس صنف میں بہرحال سب سے معتبر حوالہ آج بن چکا ہے۔
مستنصر حسین تارڑ افسانہ نگاری کے جد امجد نہیں ہیں نہ ان کا اسلوب اس صنف کا پہلا یا آخری اسلوب ہے لیکن ان جتنی مقبولیت خواص و عوام میں کسی اور کو حاصل نہیں ہوئی۔اردو ادب کا ہر قاری جسے اردو ادب سے معمولی سا شغف ہے وہ مستنصر حسین تارڑ کے نام سے ضرور واقفیت رکھتا ہے۔ان کی جیسی مقبولیت و احترام اس صنف میں کسی اور کو کبھی نہیں ملی۔
پاکستان اور دنیا بھر میں اپنے اسفار کو سفر ناموں کی شکل دے کر قارئین کو ان جگہوں شہروں بستیوں برف پوش پہاڑوں جنگلات، وادیوں اور قدرتی حسن سے مالا مال مقامات کو ایسے بیان کیا ہے کہ ان کا قاری خود کو ان علاقوں میں محسوس کرتا ہے ۔
مستنصر حسین تارڑ پاکستان کے مشہور سفر نامہ نگار ہیں۔ اب تک پچاس سے زیادہ کتابیں لکھ چکے ہیں۔ ان کی وجہ شہرت سفر نامے اور ناول نگاری ہے۔ اس کے علاوہ ڈراما نگاری، افسانہ نگاری اور فن اداکاری سے بھی وابستہ رہے۔ مستنصر حسین تارڑ پاکستان کے سب سے زیادہ پڑھے جانے والے ادیب ہیں۔
مستنصر حسین تارڑ 1 مارچ 1939ء کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ اُنھوں نے مشن ہائی اسکول، رنگ محل اور مسلم ماڈل ہائی اسکول میں تعلیم حاصل کی۔میٹرک کے بعد گورنمنٹ کالج میں داخلہ لیا۔ ایف اے کے بعد برطانیہ اور یورپ کے دوسرے ممالک کا رخ کیا، جہاں فلم، تھیٹر اور ادب کو نئے زاویے سے سمجھنے، پرکھنے اور برتنے کا موقع ملا۔ وہ ٹیکسٹائل انجنئیرنگ کی تعلیم حاصل کرکے وطن واپس لوٹے۔ٹی وی ڈراموں میں کام کیا ہے۔ متعدد سفر کیے۔ آج کل اخبار جہاں میں ہفتہ وار کالم لکھتے ہیں۔
1957ء میں وہ ماسکو، روس میں ہونے والے یوتھ فیسٹول میں گئے اس سفر کی روداد پر ناولٹ “فاختہ” لکھی۔ یہ ان کے قلمی سفر کا باقاعدہ آغاز تھا۔1974 میں لکھا ”آدھی رات کا سورج“ بہ طور مصنف پہلا ڈرامہ تھا اس کے علاؤہ شہپر ،ہزاروں راستے، پرندے، سورج کے ساتھ ساتھ، ایک حقیقت ایک افسانہ اور کیلاش جیسے ڈرامہ لکھے۔

1961 میں یورپی ممالک کی سیاحت سے واپسی پر ”نکلے تری تلاش میں“ کے نام سے سفرنامہ لکھا۔ اگلا سفر نامہ”اندلس میں اجنبی” تھا ۔ 42 برسوں میں 30 سفرنامے شائع ہوئے۔ ان کے چند نمایاں سفرناموں میں خانہ بدوش، نانگا پربت، نیپال نگری سفر شمال کے،سنو لیک، کالاش ،پتلی پیکنگ کی، شمشال بے مثال، سنہری اُلو کا شہر وغیرہ شامل ہیں۔

سفرنامے کے بعد ناول نگاری میں طبع آزمائی کی۔ اولین ناول “پیار کا پہلا شہر” ہی بیسٹ سیلر ثابت ہوا۔ اب تک اِس کے پچاس سے زائد ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔ اس کے علاؤہ ان کے ناولوں میں “راکھ” اور “بہاؤ” بہت اہم مقام رکھتے ہیں ۔ “بہاؤ” وادی سندھ کے ایک شہر کا احوال ہے جو ایک قدیم دریا سرسوتی کے معدوم اور خشک ہو جانے کا بیان ہے۔ناول کی زبان انتہائی منفرد ہے اس میں سندھی، سنسکرت، براہوی اور سرائیکی زبان کے الفاظ جا بجا ملتے ہیں جس سے ناول کا طرزِ تحریر اور اسلوب منفرد ہو جاتا ہے۔
راکھ کو 1999ء میں بہترین ناول کے زمرے میں وزیر اعظم ادبی ایوارڈ کا مستحق گردانا گیا، جس کا بنیادی موضوع سقوط ڈھاکا اور بعد کے برسوں میں کراچی میں جنم لینے والے حالات ہیں۔
ان کا ”قلعہ جنگی“ نائن الیون کے بعد افغانستان پر امریکی حملے کے پس منظر میں لکھا گیا ہے۔ اردو کے ساتھ پنجابی میں بھی ناول نگاری کا کام یاب تجربہ کیا۔ دیگر ناولوں میں اے غزال شب ، خس و خاشاک زمانے، قربت مرگ میں محبت وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
مستنصر حسین تارڑ کو سفر نامہ نگاری میں خاص مقام حاصل ہے وہ اردو ادب میں سب سے زیادہ پڑھے جانے والے افسانہ نگار ہیں۔اس کے ساتھ ان کا ناول خس و خاشاک زمانے خشونت سنگھ کے ناول دلی کی طرز پر لاہور شہر کی سو سالہ تاریخ کا نوحہ کہا جا سکتا ہے یہ ناول ان کے پہلے ناول کی طرح بڑا ناول سمجھا جاتا ہے۔
مستنصر حسین تارڑ اس وقت اردو ادب کا ایک بڑا معتبر اور اہم حوالہ ہیں ان کی ادبی زندگی اور خدمات ان کو تا دیر زندہ رکھیں گی ۔وہ اپنے اسلوب انداز ، افسانے ناولوں کے حوالے سے ہمیشہ پہنچانے جائیں گے ۔اردو افسانہ نگاری میں ان کا نام ایک روشن سورج کی طرح جگمگاتا رہے گا ۔ اس صنف میں ان کا کام اس صنف کی آج روح بن چکا ہے۔ جیسے بھیلایا نہیں جا سکتا ۔