مغل اعظم کا شیخو

مغل اعظم کا شیخو
مرزا صہیب اکرام

فلمی دنیا کی اپنی کہانیاں ہوتی ہیں ان کی داستانیں باہر کی دنیا سے الگ تھلگ ہوتی ہیں۔ہندوستان کے فلمی افق پر ہزاروں فلمیں آئیں اور چلی گئیں ۔ہزاروں سے شروع ہوا بزنس اربوں تک جا پہنچا ۔ بہت سی شاہکار فلموں نے کئی سال اور دہائیوں تک لوگوں کے دل و دماغ کو مسحور کیے رکھا ۔
لیکن ایک فلم ایسی بھی ہندوستانی سینما نے دنیا کو دی ہے جس نے ہندوستان کے سینما کو خاص بنا دیا ہے ۔ہر بڑی فلم چند سال یا ایک دو دہائیوں کا سفر کرتی ہے ۔ پانچ اگست کو مغل اعظم کو ریلیز ہوئے 61 سال ہوجائیں گے لیکن اس کا سحر آج بھی قائم ہے ۔
مغل اعظم نے نہ صرف اپنے بعد والوں کے لیے کچھ روایات اور اصول طے کیے تھے بلکہ اس نے ہندوستانی سینما کی تاریخ کو بدل ڈالا تھا ۔ آج ہندوستان کے سینما کو وجود میں آئے 130 سال کا عرصہ بیت چکا ہے ۔ناٹک سے ڈرامائی فلموں اور پھر سنجیدہ موضوعات تک آتے آتے سو سال بیت گئے۔ پہلی چھ دہائیوں میں ہر آنے والی دہائی نے پچھلی فلموں کو بھلا دیا ۔
لیکن مغل اعظم نے اس روایت کو بدل ڈالا اور اس فلم کے بعد کبھی کوئی نئی روایت جنم نہ لے سکی ۔ کے آصف کے عشق کی اس داستان کو بعد میں کبھی کوئی پھلانگ نہیں سکا۔
فلموں سے شغف رکھنے والے جانتے ہیں کہ ہر جمعرات کو پردہ ہٹا کرتا ہے اور فلم بین نئی آنے والی فلم کو دیکھنے کے لیے بے تاب ہوتے ہیں۔ مغل اعظم بھی ایسے ہی ایک دن انڈو پاک میں ریلیز ہوئی تھی ۔لیکن وہ دن کوئی عام دن نہیں تھا۔ یہ ایک ایسی فلم کے ظہور کا دن تھا جس نے ہندی سینما کو مستحکم اور نئی بنیاد فراہم کرنا تھی ۔ بعض فلموں کے چند کردار امر ہو جاتے ہیں اور بعض فلمیں خود امر ہو جاتی ہیں۔ لیکن مغل اعظم ایسی فلم تھی جس کو دیکھنے والے بھی تاریخ میں امر ہوئے اور یہ جس جس سینما گھر میں لگی اس کا نام بھی تاریخ سے مٹایا نہیں جا سکا ۔
مغل اعظم جس پیمانے پر بنی تھی آج اُس کا تصور بھی محال ہے ۔ پندرہ سال کے آصف جیسے دیوانے نے خواب دیکھا اس خواب کی تعبیر اتنی روشن اور واضح تھی کہ اس کے بعد کبھی ویسا رنگ جما ہی نہیں۔
بظاہر تو 1945 میں کے آصف نے مغل اعظم کو بنانے کا آغاز کیا لیکن وہ فلم بن نہ سکی اور پھر 1950 میں کے آصف نے بہت سی تبدیلیوں، نئے اداکاروں، اور نئی لگن کے ساتھ پھر سے مغل اعظم بنانے کا فیصلہ کیا۔ دس سال کی مدت میں صرف ایک فلم کی تکمیل نہیں ہوئی بلکہ ہندوستانی سینما نے اپنی پہچان کو حاصل کر لیا۔
مغل اعظم ایک دیوانے کا خواب تھا جس کی تعبیر پانے کے لیے کے آصف نے اپنی ساری زندگی صرف کر دی ۔
امتیاز علی تاج نے جب 1922 میں انارکلی کا کردار تخلیق کیا تھا تب یہ نہیں سوچا ہوگا کہ کوئی اس کردار کو اس طرح امر کردے گا۔
اگر فلم کے بننے کی کہانی کا ذکر کریں تو تو فلم کی کہانی سے بھی زیادہ دلچسپ اور عجیب ہے۔ یہ کہانی فلم کی نہیں ایک جنون کی ہے جس کو سن کر یقین کرنا مشکل ہے لیکن ایک انسان نے اس کو حقیقت میں جیا تھا ۔ کے آصف نے مغل اعظم کو اتنا بڑا بنا دیا کہ ویسا خواب بھی کبھی کوئی نہ دیکھ سکے۔
یہ فلم 1945 میں شروع ہوئی تھی تو اس میں اکبر اعظم کے لئے چندر موہن ، شہزادہ سلیم کے لئے سپرو اور انارکلی کے لئے نرگس کا انتخاب ہوا تھا ۔یہ کاسٹ بہت ساری تبدیلیوں کے بعد حتمی سمجھی گئی تھی۔1947 میں فلم کے پروڈیوسر شیراز علی حکیم کے پاکستان چلے جانے کے بعد فلم کافی عرصہ کے لئے بند ہوگئی تھی ۔ ایک وقت ایسا بھی آیا جب لوگوں نے بھلا دیا کہ مغل اعظم کے نام سے کوئی فلم بھی بن رہی تھی ۔ لیکن کہانی میں نیا موڑ اس وقت آیا جب شاہ پور جی نے فلم میں پیسہ لگانے کا ارادہ ظاہر کیا۔اور اس طرح سے کے آصف ایک بار پھر اپنے خوابوں کی تعبیر کو پانے میں لگ گئے ۔۔
اس فلم کی ہر چیز منفرد تھی ۔ فلم کے ہر شعبہ میں ایسا کچھ کیا گیا جو اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا تھا ۔ فلم کے پوسٹر سے لے کے سیٹ کاسٹیوم اور موسیقی تک ہر چیز کو کمال عروج پر پہنچایا گیا ۔
مغل اعظم کے کاسٹیوم کی سلائی خاص طور پر دہلی سے درزی بلا کر کئی گئی، سورت سے کشیدہ کاری کرنے والے ، حیدر آباد سے جیولر ، کولہا پور سے تاج بنانے والے ، آگرہ سے جوتا بنانے والے اور راجستھان سے ہتھیار بنانے والے جمع کیے گئے ۔ تاکہ فلم کے کسی ایک بھی شعبے اور سین پر سمجھوتا نہ کرنا پڑے ۔
اس فلم کا اسکرپٹ اور ڈائلاگ اس وقت کے چار بڑے رائٹرز اختر الایمان ، وجاہت مرزا ، احسان رضوی اور کمال امروہی نے مل کر تحریر کیا ۔
فلم کے لئے کل بیس گانے ریکارڈ کئے گئے تھے جس میں سے بارہ فلم میں شامل ہوئے ۔ ان گانوں کو شکیل بدایونی نے بے حساب کوششوں کے بعد پرفیکٹ بنایا۔ پرفیکشن کی آخری حد کو عبور کرنے والے کے آصف نے گانے میں گونج پیدا کرنے کے لئے لتا منگیشکر سے گانے باتھ روم میں گوائے ۔
اے محبت زندہ باد” گانے کی بات کی جائے تو اس ایک گانے میں سو لوگوں کا کورس تھا ۔
صرف دو گانوں کے لئے استاد بڑے غلام علی خان کو 2500 روپے دئیے تھے ۔
فلم کا ایک گانا اور چند سین ٹیکنی کلر میں فلمائے گئے تھے لیکن بجٹ نے کے آصف کو مہلت نہیں دی کہ وہ اس حسین خواب کو مکمل رنگین کر پاتے ۔ پوری فلم کلر میں ریلیز کرنے کا خواب تقریبا 44 سال بعد پورا ہوا ۔
فلم کو فکشن سے حقیقت تک لانے کے لیے کے آصف نے ہر منظر کو حقیقت کے اتنا قریب بنانے کی کوشش کی کہ دیکھنے والوں کو یقین آ جائے کہ بادشاہ کیسے ہوا کرتے تھے اور مغلوں کے عہد کا ہندوستان کیسا تھا ۔
موہے پنگھٹ والے گیت میں بھگوان کرشنا کی مورتی اصل سونے کی بنی تھی۔
فلم میں جنگ کے سین میں 200 اونٹ 4000 گھوڑے اور آٹھ ہزار سپاہی شامل تھے ۔۔کچھ جنگجو باقاعدہ طور پر انڈین آرمی سے بھی شامل کئے گئے ۔
کے آصف کے خوابوں کی تعبیر اس قدر بڑی تھی کہ فلم کا بجٹ حد سے تجاوز کر گیا اور کئی فنانسر پیچھے ہٹ گئے ۔۔فلم ہزاروں سے شروع ہوئی اور لاکھوں سے ہوتی ہوئی کروڑوں تک جا پہنچی ۔
صرف ایک گانا “پیار کیا تو ڈرنا کیا” کو عکس بندی کرنے کا خرچ تقریبا دس لاکھ آیا تھا۔ جو اس وقت بننے والی بڑی فلموں کے بجٹ سے بھی زیادہ تھا ۔۔
شیش محل کے سیٹ کے لئے غیر ملکی ماہرین بلائے گئے اور اس لازوال سیٹ کی تکمیل کو دو سال کا عرصہ لگا ۔اتنی محنت اور لاکھوں کے خرچ کے بعد مسلہ یہ اٹھا کہ اس شیش محل میں کیمرے کی آنکھ سے بچ کر شوٹنگ کیسے ہو سکتی ہے۔ سارے ہندوستان سے لوگ بلائے اور دیار غیر سے بھی چند افراد کو محل دکھایا گیا لیکن سب کی رائے ایک ہی تھی کہ اس قدر زیادہ شیشوں کی موجودگی میں یہ ممکن ہی نہیں کہ کیمرہ مین بعد عکس بندی کے دوران اپنا آپ چھپا سکے ۔لیکن یہ مغل اعظم کی بات تھی جہاں پر ہر چیز کا آغاز ہی ناممکن سے ہو رہا تھا پھر چشم فلک نے دیکھا کہ کے آصف نے اس ناممکن سین کو اس قدر آسانی سے عکس بند کیا کہ وہ سین اتہاس میں امر ہو گیا۔
یہ پہلی انڈین فلم تھی جو تین زبانوں میں ایک ساتھ بنی ۔۔ہندی کے علاؤہ تامل اور انگلش میں عکس بند ہوئی لیکن انگلش میں ریلیز نہیں ہوئی۔
فلم کو ملک کے طول و عرض کے 150 تھیٹروں میں ریلیز کیا گیا جو اس وقت ایک ریکارڈ تھا ۔۔لوگ ٹکٹ کے لئے گھنٹوں لائن میں کھڑے رہتے ۔۔فلم نے کامیابی کے سارے ریکارڈ توڑ دئیے تھے اور
highest grossing Bollywood film.of that time
تھی اور یہ ریکارڈ پندرہ سال قائم رہا ۔ فلم کا ٹکٹ سو روپے کا تھا جب کہ عام ٹکٹ اس وقت ڈیڑھ روپے کا ہوتا تھا ۔ آج بھی ایڈجسٹمنٹ بزنس کے حساب سے دیکھا جائے تو مغل اعظم ہندی سینما میں کمائی کے اعتبار سے سب اوپر ہے ۔آج کے اس دور میں جہاں بڑی سے بڑی فلم کا بزنس ہزاروں سینماوں میں ریلیز ہو کر 500 کروڑ تک جانا معرکہ سمجھا جاتا ہے اس وقت مغل اعظم کا بزنس روپے کی مالیت اور اتار چڑھاو کے حساب سے 2000 کروڑ بنتا ہے ۔ یہ ایک ایسا اعزاز ہے جو اگلی کئی دہائیاں بھی ٹوٹتا نظر نہیں آتا ۔
فلم نے جہاں مقبولیت کے تمام پیمانے زمین بوس کر دئیے وہیں پر نقادوں اور تنقید نگاروں سے بھی داد و تحسین حاصل کی ۔۔ملکی اور غیر ملکی تنقید نگار اور فلمی مبصروں نے اسے کلاسک مانا اور ہر بڑے فلم نقاد نے مغل اعظم کو بہترین ہندی فلم قرار دیا ۔
مغل اعظم پہلی ہندی فلم ہے جو کلر کی گئی اور دنیا کی پہلی فلم ہے جو تھئیٹر میں دو بارہ ریلیز ہوئی۔۔نومبر 2004 کو یہ فلم 150 تھیٹروں میں ریلیز ہوئی اور اتنی کامیاب ہوئی کہ شو نوے فی صد فل تھے اور فلم نے سلور جوبلی کی اور سات انٹرنیشنل فلم فیسٹیول میں بھیجی گئی۔
کے آصف نے زندگی میں مغل اعظم کے علاؤہ ایک ہی اور مکمل فلم بنائی تھی پھول ۔۔۔۔صرف مغل اعظم بنانے پر اگر کے آصف کو ہدایت کار اعظم کا خطاب دیا جائے تو بے جا نہیں ہوگا ۔ فلمیں ہزاروں بن جایا کرتی ہیں لیکن تاریخ کا دھارا ہر کوئی نہیں موڑ سکتا ۔
اس فلم سے جڑے سب بڑے لیجنڈز دلیپ کمار ،پرتھوی راج کپور ،مدھوبالا، اجیت ،نگار سلطانہ ، کمار ، مراد، گوپی کرشن کے علاؤہ نوشاد، شکیل بدایونی ، محمد رفیع ، بڑے غلام علی خاں، اختر الایمان ، وجاہت مرزا ، احسان رضوی اور کمال آمروہی اور کے آصف ۔۔۔سبھی اس دنیا سے جاچکے ہیں۔صرف دو ہستیاں لتا منگیشکر اور بے بی تبسم اس دنیا میں موجود ہیں ۔
اس فلم کے دوران مدھوبالا ہارٹ کی بیماری کا شکار ہوئیں اور کئی بار سیٹ پر بے ہوش ہوئی ۔مدھوبالا کو جیل کے سین میں اصلی زنجیریں پہنائی گئی تھی
ہندی سینما کی تاریخ کی سب سے بڑی اور کامیاب فلم کو ایوارڈز نے نظر انداز کیا گیا ۔ اس وجہ سے دلیپ کمار ، مدھوبالا ،پرتھوی راج نوشاد سمیت کسی کو بھی ایوارڈ نہیں ملا۔
فلم کی کہانی کی بات جائے تو یہ کہانی ہندوستان کی زبانی ہے اور مغل اعظم یعنی شہنشاہ اکبر کی کہانی بیان کی گئی ہے کہ ایک شہنشاہ اپنی اولاد اور فرض کے بیچ کس طرح فرض کو اہمیت دیتا ہے۔لیکن کمال کی بات یہ ہے کہ اس فلم کو آج اگر کے آصف کی لازوال محنت کے بعد کسی ایک انسان کہ وجہ سے یاد رکھا جاتا ہے تو فلم میں سلیم کا کردار امر کر دینے والے دلیپ کمار ہیں۔فلم مغل اعظم کی تھی اور وہ کردار ادا کرنے والے فنکار پرتھوی راج کپور تھے جن کی آواز کا دبدبہ اور ان کی شاندار شخصیت ان کو باقی تمام فنکاروں سے ممتاز کرتی تھی۔ پھر فلم کے اکثر پاور فل ڈائلاگ بظاہر پرتھوی راج کپور کے پاس تھے ۔ لیکن جہاں دلیپ کمار ہوں وہاں سامنے مغل اعظم بھی ہو تو فنِ اداکاری کے میدان میں تخت پر بس ایک کمار بیٹھتا ہے جس کو دنیا دلیپ کمار کہتی ہے ۔
سوچنے اور سمجھنے کی بات ہے کہ آخر ایسا ہوا کیسے کہ طوالت کے اعتبار سے مختصر رول میں دلیپ کمار پوری فلم کو نہ صرف اپنے نام کر گئے بلکہ انہوں نے شیخو بن کر وہ مقام حاصل کر لیا جس کے بعد مغل اعظم کا ٹائٹل لوگ پرتھوی راج کپور کی جگہ دلیپ کمار کی نسبت سے یاد رکھنے لگے ۔۔
مغل اعظم سے پہلے بھی ہندی سنیما میں تاریخی فلمیں بنتی رہی تھیں ۔ مغل اعظم سے پہلے شہزادہ سلیم کا کردار فلم پکار کے لئے چندر موہن نے کیا تھا اور فلم انارکلی میں پردیپ کمار نے اسی رول کو نبھایا تھا اور فلم کی شوٹنگ کے دوران لوگ دلیپ کمار کو شہزادہ سلیم کے روپ میں دیکھنے کے لئے تیار نہیں تھے ۔۔ان کی ظاہری شخصیت پردیپ کمار اور چندر موہن کے مقابلہ میں شہزادہ سلیم سے میچ نہیں کرتی تھی ۔۔
لیکن فلم ریلیز ہونے کے بعد جب دلیپ کمار نے سلیم کا رول ادا کیا تو اس وقت سے لے کر آنے والی نسلوں تک شہزادہ سلیم کا نام سن کر ذہن میں دلیپ کمار کے علاؤہ کسی اور کا تصور بھی نہیں آسکتا ۔
اس فلم میں دلیپ کمار کی اداکاری کا وہ عروج ہے جس کی برابری کوئی دوسرا اداکار نہیں کرسکتا ۔
دلیپ کمار کی اس فلم میں جو سب سے بڑی خوبی ہے وہ یہ کہ انہوں نے ایک شہزادے کا کردار اس طرح ادا کیا کہ وہ شاہی انداز و بیان کو جانچنے کا پیمانہ بن گیا ۔۔ 1960 میں ہندوستان سے بادشاہت کے خاتمے کو مدتیں بیت چکی تھیں ۔ ہر انسان نے شہزادوں کے رعب دبدبے رعونت مزاجی ، نفاست پسندی اور جاہ و جلال کو صرف تاریخ کی کتابوں میں پڑھا تھا ۔ اس لیے حقیقت میں شہزادہ کیسا ہوتا ہوگا اور وہ گفتگو کیسے کرتا ہوگا ، اس کا اٹھنا بیٹھنا ، چلنا پھرنا ، محبت اور جلال کیسا ہوگا ، وہ بطور شہزادہ ، فرزند ، جنگجو سپہ سالار ، دوست اور عاشق کیسا مزاج رکھتا ہوگا یہ عام آدمی نہیں جانتا تھا ۔۔دلیپ کمار کے سامنے بھی ایسے بے شمار سوال تھے کہ شہزادے اپنے والدین سے کیسے مخاطب ہوتے ہوں گے ۔ وہ عشق کے اظہار میں کس انداز کے قائل ہوں گے ، وہ جنگ کے میدان میں کس طرح لڑتے ہوں گے ۔ وہ اگر بغاوت پر اتر آتے ہوں گے تب ان کا رد عمل کیا ہوتا ہوگا ۔
ان سب سوالوں سے ایک بات سمجھ آتی ہے جو کہنے میں بہت سادہ مگر غور کیا جائے تو بہت بڑی ہے ۔دلیپ کمار کو لارجر دین لائف کردار ادا کرنا تھا ۔ بطور اداکار کام کرنا آسان ہوتا ہے لیکن جب آپ میتھڈ ایکٹر ہوں تب آپ کو اگر ہزاروں جہتیں بھی ملیں تو آپ کو ان میں پوری طرح ڈوب ہو جانا پڑتا ہے ۔
دلیپ کمار نے اس چیلنج کو قبول کیا اور تمام جہتوں کو ایسے ادا کیا کہ ہر دیکھنے والا جان گیا کہ شہزادے کیسے ہوتے ہوں گے ۔ پوری فلم میں دلیپ کمار جب بات کرتے ہیں تو ان کا انداز صرف نپا تلا نہیں ہوتا بلکہ ایک حاکمانہ احساس لئے ہوتا ہے۔۔شہزادہ وقار کی علامت ہوتا ہے اس کا کہا حکم کا درجہ رکھتا ہے اور اس لئے ہر جملے کے بعد اپنے ہونٹ ایسے سِی لیتے ہیں جیسے کہی گئی بات کے بعد اب کوئی بات نہیں ہوگی ۔ یہ کردار کی وہ باریکی ہے جسے ہر کوئی نہیں سمجھ سکتا ۔
اگر شہنشاہ کے سامنے وہ با آوازِ بلند بات کرتے ہیں تب بھی ان کے اندازِ تکلم میں گستاخی نہیں بلکہ ایک وجاہت نظر آتی ہے ۔ جب محبوب سے محبت کے دعوے کرتے ہیں تب بھی نظر آتا ہے کہ یہ کوئی دل پھینک عاشق نہیں بلکہ ہندوستان کا ہونے والا شہنشاہ اپنی محبوبہ سے اظہارِ عشق کر رہا ہے ۔
دلیپ کمار کی اداکاری کی باریکی اور گہرائی ہر سین میں نظر آتی ہے ۔چاہے وہ شہزادہ سلیم اور شہنشاہ اکبر کے درمیان تناؤ بھرے سین ہوں یا مدھوبالا کے ساتھ بنا ڈائلاگ کے ادا کیا رومانی سین ۔
کچھ مناظر میں دلیپ کمار نے صرف اپنے چہرے کے تاثرات س اداکاری کے وہ جوہر دکھائے ہیں جو شاید بہت سے اداکار طویل مکالموں سے بھی نہیں کر سکتے۔
جیسے فلم کے گانے ” پیار کیا تو ڈرنا کیا “. میں گانے کی ابتدا میں انارکلی کو رقص کرتے دیکھ کر جو تکلیف کا احساس نظر آتا ہے اور گانے کے بول سن کر اور انارکلی کے باغی انداز پر اپنی محبت کی جیت کا جو تاثر نظر آتا ہے اور جس طرح مسکرا کر اکبر اعظم کو اس چیز کا احساس دلایا جاتا ہے وہ صرف دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے ۔۔ اس کے ساتھ ساتھ دربار میں سزا موت کی سزا پا کر اکبر اعظم کو خاموشی سے دیکھ کر پلٹ جانا ۔
اس کے علاؤہ مدھوبالا کے ساتھ آخری سین جب دلیپ کمار نشہ کی حالت میں خود کو بے بس محسوس کرتے ہیں اور سپاہیوں کو انارکلی کو لے جاتے ہوئے دیکھتے ہیں بہت اعلی ہے ۔۔ اس سین میں دلیپ کمار کا کمال اس وجہ سے الگ ہے کہ اکثر ہیروز شراب کے نشے کی اداکاری کرتے ہیں لیکن ںے ہوشی کی دوا سونگھ کر انسان کے حواس کیسے جواب دیتے ہیں یہ بات عام لوگ نہیں جانتے ۔ دلیپ کمار شرابی کی اداکاری میں ید طولی رکھتے تھے لیکن اس سین میں ان کو شرابی کی جگہ بے ہوشی کی دوا کے اثرات کو دکھانا تھا ۔ وہ جب انار کلی سے کہتے ہیں کہ
“ایسا کیوں کیا تم نے ، یہ خوبصورت ہاتھ، شاید انہوں نے محبت کا دامن چھوڑ دیا نا آخر ، اچھا یہ مجھ سے بے وفائی کر سکتے ہیں ۔ سلیم سے منہ نہ پھیرو انار کلی ، میرے پاس آؤ ، بتاؤ کیا تم مجھ سے بے وفائی کر سکتی ہو ” ۔
اسی سین میں آگے چل کر جب دلیپ کمار مدھو بالا سے کہتے ہیں کہ ” کون ہے جو تمہیں زندگی سے محروم کر دینا چاہتا ہے ، کیا یہ ہوش و حواس اسی لیے چھین لیے گئے کہ تم مجھ سے جدا کر دی جاؤ ” ، پھر انار کلی کے جواب میں کہتے ہیں کہ تقدیر کو فیصلہ بدلنا ہوگا ،
انار کلی میں دیکھ رہا ہوں ، یہ رینگتے ہوئے سائے ، یہ اکبر اعظم کے بزدل غلام جو تمہیں لینے آ رہے ہیں , میں دیکھ رہا ہوں ،”
پھر چلا کر کہتے ہیں کہ ” سامنے آؤ انار کلی میری ہے ، اسے مجھ سے کوئی نہیں چھین سکتا ، یہ بے دست و پا غلام تمہارے پاک جسم کو نہیں چھو سکتے انار کلی ،”
پھر ںے ہوشی سے پہلے آخری جملہ ٫ انار کلی , جانِ سلیم ” کہنا ۔۔
یہ وہ تاریخی لمحات اور مناظر ہیں جو دلیپ کمار نے امر کر دیئے ۔
انار کلی سے بے وفائی کا شکوہ ، پھر ایک کنیز کی مجبوری کا احساس ، اس کے بعد اپنے کھو رہے احساسات کا غم ، انار کلی کے وصل کی خوشی مگر آنے والے ہجر کا غم ، ان تمام کیفیات کو دلیپ کمار نے ایسے ادا کیا ہے ، اس سے بہتر سوچا بھی نہیں جا سکتا ۔ انار کلی میری ہے کہنے والے سلیم کی محبت اس مقام پر ہے جہاں پر وہ تاج و تخت وار دینا چاہتا ہے لیکن اگلے ہی پل وہ مجبور و بے کس ہے جب وہ ناپاک ہاتھ اور گہرے سائے انار کلی کہ جانب بڑھنے سے روک رہا ہے ۔
یہ سین فلم کا سب سے عمدہ سین کہا جائے تو غلط نہ ہوگا ۔
جودھا بائی جب سلیم سے یہ کہتی ہے کہ مہا بلی کا سامنا ایک لونڈی کے لیے ۔۔
اس سوال پر سلیم کے اندر ایک شور بپا ہوتا ہے اور وہ چیخ کر اپنی محبت کا اظہار کرتا ہے اور اس وقت وہ بھول جاتا ہے کہ سامنے اس کی ماں ہے ،
” نہیں اس کے لیے جو میرے عہد میں مغرور مغلوں کی آبرو اور ہندوستان کی ملکہ بنے گی ”
پھر دلیپ کمار بطور سلیم کہتے ہیں کہ ” میرا دل بھی کوئی آپ کا ہندوستان نہیں جس پہ آپ حکومت کریں ”
اس کے بعد بات آگے بڑھتی ہے اور دلیپ کمار کہتے ہیں ” ہاں میں آپ کی اولاد ہوں مگر مجھ پر ظلم ڈھاتے ہوئے آپ کو یہ سوچنا چاہیے کہ میں آپ کے جگر کا ٹکڑا ہوں, کوئی غیر یا کوئی غلام نہیں ” ۔
اور جب جودھا بائی سلیم کو اپنے دودھ کا واسطہ دیتی ہے اس وقت دلیپ کمار کے ڈائلاگ ” آپ اپنے دودھ کا مجھ سے معاوضہ مانگتی ہیں ”
اس کے بعد دلیپ کمار کہتے ہیں ” تو پھر یوں نہیں، وہ آپ کا دودھ جو خون بن کر میری رگوں میں بہہ رہا ہے ، کہیے تو وہ سب آپ کے قدموں میں بہا دوں ، مگر مجھ سے اس کا سود وصول نہ کریں ” ۔
اس کے بعد کہتے ہیں
مجھے اپنے قیمتی ہندوستان میں سے ایک ذرہ تک نہ دیں مگر انار کلی مجھے بھیک میں دے دیں ، میں مہارانی جودھا بائی کے جان و مال کا صدقہ اور شہنشاہ اکبر کی سلطنت کی خیرات مانگتا ہوں ” ۔
اس پورے سین میں دلیپ کمار اداکاری کہ اس آخری حد پر ہیں جو بیان سے باہر ہے ۔
اپنی محبت کی توہین پر ماں کے سامنے با ادب ہو کر بلند لہجے میں انار کلی کر تقدس کی حفاظت کرنے والا سلیم اپنی محبت پر ہندوستان کو وار دینے کا عہد کرتا ہے اس کا لہجہ ٹھوس اور مضبوط ہے ۔ لیکن اگلے ہی پل جب شیخو اپنی ماں سے مخاطب ہے اس کے اندر کا درد باہر نکل آتا ہے وہ دو زانوں ہو کر محبت کی بھیک مانگتا ہے , جیسے ایک معصوم بچہ اپنی ماں سے کسی من پسند چیز کی فرمائش کرتا ہے ۔ لیکن جب ماں دودھ کا واسطہ دیتی ہے تب سلیم ایسے دکھ سے گلہ کرتا ہے کہ اس کا کرب دیکھنے والے محسوس کرتے ہیں ۔ ایک ہی منظر میں دلیپ کمار پہلے اپنی محبت کہ حرمت کا پاس رکھتے ہیں پھر اپنی ماں سے شکوہ کرتے ہیں کہ ماں بھی محبت میں تجارت چاہتی ہے اور عین اسی لمحے اپنا لہو بہا کر ماں سے اپنی بے پایاں محبت کو ثابت کرتے ہوئے آخر میں ایک بلکتے ہوئے معصوم بچے کہ طرح ماں سے پلو سے لگ جاتا ہے اور ایک بھکاری کی طرح ملکہ ہندوستان سے التجا کرتا ہے ۔
دلیپ کمار کا یہ سین فلم کا ایسا سین ہے جس کے ایک ایک لفظ اور چہرے کے ایک ایک تاثر پر مضمون لکھا جا سکتا ہے ۔ چیختا ہوا شیر ، ہندوستان کے بادشاہ سے ٹکرانے کا عزم کیے ہوئے سلیم ایسے محبت کی خاطر گڑگڑاتا ہے کہ ماں کا دل موم ہو جاتا ہے ۔
پرتھوی راج کپور کے ساتھ دلیپ کمار کے سین فلم کے بہترین سین کہے جاسکتے ہیں ۔وہ سین جب دلیپ کمار ایک دکھی انسان ، عاشق اور بیٹا بن کر اپنے باپ اور شہنشاہِ ہندوستان سے التجا کرتے ہیں فلم کا بہترین سین ہے ۔ دلیپ کمار آنکھوں میں آنسو ، دل میں گداز ، لہجے میں نرمی اور کرب و الم کی تصویر بنے ایک پتھر سے سر پھوڑتے ہوئے کہتے جب کہتے ہیں ۔۔
” تقدیریں بدل جاتی ہیں ،زمانہ بدل جاتا ہے ،ملکوں کی تاریخ بدل جاتی ہے ،شہنشاہ بدل جاتے ہیں ۔۔مگر اس بدلتی ہوئی دنیا میں محبت جس انساں کا دامن تھام لیتی ہے وہ انسان نہیں بدلتا “۔۔
اس ڈائلاگ میں جہاں شہنشاہ سے بغاوت محسوس ہوتی ہے وہیں ایک محبت کرنے والے دل کی نرمی بھی جھلکتی ہے ۔۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حقیقی شہزادوں کا رکھ رکھاؤ آداب و خصائل اور جملہ خصوصیات اگر ہوتی ہوں گی تو یقیناً دلیپ کمار کے فلم میں نبھائے مینر ازم کے سامنے بھی ماند پڑ جائیں گی ۔
اس وقت دلیپ کمار کی آنکھیں اس کی آواز ان کا لہجہ اور پورا وجود دیکھنے والوں پر سوگ کی کیفیت طاری کر دیتا ہے ۔۔
جب دلیپ کمار کو جنگ کی ناکامی کے بعد ہتھکڑیوں میں جکڑ کر بھرے دربار میں پیش کیا جاتا ہے تب دلیپ کمار کا اکبر اعظم سے کیا گیا مکالمہ نا صرف فلم کی جان ہے بلکہ دلیپ کمار کے لہجے کی پختگی ان کے چہرے کے سرد مہری، پاٹ دار آواز , ارادے کی مضبوطی اور اپنے موقف اور محبت پر قائم رہنے کا حوصلہ ، چہرے اور آنکھوں کے تاثرات ، اور بآواز بلند اقرارِ محبت کا انداز دلیپ کمار کے ادا کیے گئے ہر حرف کو زندہ و جاوید بنا دیتا ہے ۔ان کے یہ الفاظ صرف ادبی معراج نہیں بلکہ اداکاری کی معراج بھی ہیں ۔
” تو پھر عادل شہنشاہ کو اپنی حکومت میں اُن تڑپتے ہوئے نافرمان پروانوں کو بھی سزا دینی چاہیے , جو شمع پر نثار ہو جاتے ہیں ۔ پھولوں پر منڈلاتے ہوئے اُس بھنورے کو بھی قید کرنا چاہیے ، جو محبت کے میٹھے راگ گاتا ہے ۔ ندی کے مچلتے ہوئے اس پانی کو بھی روک دینا چاہیے ، جو سمندر کے آغوش میں اپنا نام و نشان کھو دیتا ہے ”
جب اکبر اعظم تخت و تاج سے محروم کر دینے کی دھمکی دیتے ہیں ۔ تب سلیم کہتا ہے ۔۔
” مجھے یہ منظور ہے لیکن وہ تخت منظور نہیں جس کے پائے انار کلی کے جنازے پر رکھے ہوں ۔ وہ تاج جس کی کلغی میں خود میرا ہی دل پیوست ہو ، مجھے منظور نہیں ” ۔
اسی منظر میں اکبر اعظم انار کلی کو لونڈی کہہ کر مخاطب کرتے ہیں تو جواب میں سلیم کا جواب اور لب و لہجہ شہنشاہ پر قہر بن کر ٹوٹتا ہے ۔ جب سلیم کہتا ہے ۔۔۔
” اور آپ اس بھرے دربار میں اپنی ہونے والی بہو کو ذلیل کرنا چاہتے ہیں “
شہنشاہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر تخت و تاج و ٹھکرا کر موت کو پانے کا خواہشمند شہزادہ کہتا ہے ۔۔
” اگر آج شہنشاہ انصاف کے پردے میں اپنی شکست کا انتقام ہی لینا چاہتا ہے تو اسے انار کلی نہیں ملے گی ۔ اسے اپنے بیٹے کی جان لینی ہوگی ” ۔
سزا پانے کے بعد کہے گئے مکالمے اور دلیپ کمار کا انداز دیکھنے والوں کو کبھی نہیں بھولتا جب وہ کہتے ہیں ۔
” ایک تنگ دل شہنشاہ موت سے زیادہ کسی کو دے بھی کیا سکتا ہے ۔ جب مورخ سلیم کے خون سے انارکلی اور سلیم کی محبت کی تاریخ لکھے گا تو اس میں شہنشاہ اکبر کی موت پہلے ہو گی ” ۔
سلیم محبت میں موت کوگلے لگا کر تاریخ میں امر ہونا چاہتا ہے وہ طاقت اور محبت میں سے محبت کا دامن تھامنا چاہتا ہے وہ تاج و تخت کو اپنی محبت کے قدموں میں نچھاور کرنا چاہتا ہے اپنے خون کو اپنی ماں کے دودھ کا قرض سمجھ کر چکانا چاہتا ہے ۔ شہنشاہ کے خوابوں کی تعبیر بن کر اپنے دل کا خون نہیں کرنا چاہتا ۔ یہی تمام کیفیات ہیں جو دلیپ کمار نے سلیم کے کردار میں پرو دی ہیں ۔ وہ جنگجو سے عاشق ، عاشق سے مجبور بیٹے ، ضدی شہزادے ، اور پھر دوبارہ جنگجو بنتے ہیں اور ہر رنگ میں اتنے کامل ہوتے ہیں کہ گمان ہونے لگتا ہے کہ مغل اعظم کا ٹائٹل شاید سلیم کے لافانی کردار کو دیکھ کر رکھا گیا ہوگا ۔ فلم کو 61 سال پورے ہو چلے ہیں لیکن سلیم کا سحر بڑھتا چلا جا رہا ہے اگر آزاد تاریخ لکھی گئی اور مورخ کو کسی طاقت ور نے زنجیر نہ پہنا دی تو ایک دن وہ طئے کرے گا کہ مغل اعظم کا شیخو فلم کی آن تھا یا نہیں اور اس فلم کو لافانی بنانے میں آگر کسی کا کردار سب سے بلند تھا تو وہ فلموں کے حقیقی کمار ، فن کے سمراٹ ، شہنشاہ جذبات ، اداکاری کے دیوتا اور دنیا کے اولین میتھڈ ایکٹر دلیپ کمار تھے
کیونکہ مغل اعظم شیخو کے بنا ادھورا ہے ۔۔