ممبئی جو ایک شہر ہے عالم ِانتخاب میں

ممبئی جو ایک شہر ہے عالم ِانتخاب میں

جمالؔ ہر شہر سے ہے پیارا وہ شہر مجھ کو
جہاں سے دیکھا تھا پہلی بار آسمان میں نے

کچھ شہر ایسے ہوتے ہیں جو اپنے اندر پوری دنیا سموئے ہوئے ہوتے ہیں ۔۔عروس البلاد ممبئی یا بمبئی بھی ایک ایسا شہر ہے جہاں نہ صرف انڈیا کی مختلف ریاستوں ،زبانوں کی جھلک ملتی ہے بلکہ برصغیر کے دوسرے ممالک کا رنگ بھی نظر آجاتا ہے، نیپالی، بنگلہ دیشی کشمیری ،افغانی سب ہی ممالک کے باشندے آپ کو ممبئی میں کہیں نہ کہیں نظر آ جائیں گے۔یہ شہر صرف ایک شہر نہیں یہ تہذیبوں روایات اور اقدار کا زندہ و جاوید نمونہ بھی ہے۔جہاں کی ہر گلی نکڑ اور بازار میں ایک تاریخ چھپی ہے۔
یہ ایک بھاگتا دوڑتا شہر ہے جو کبھی نہیں سوتا یہاں لوگ گھڑی کی سوئی کے ساتھ چلتے نہیں بلکہ دوڑتے ہیں لیکن اس شہر کی خوبصورتی یہ ہے کہ اس تیز رفتاری میں بھی لوگ کسی گرتے کو ہاتھ دے کر اٹھانا نہیں بھولتے۔ یا یوں ہی چلتے دوڑتے کسی فقیر کے کاسہ میں سکے ڈالنا یا کسی عبادت گاہ کے سامنے سے گذرتے ہوئے سر جھکانا بھی یہاں کے معمولاتِ زندگی کا حصہ ہے ۔

ممبئی تاریخ کے جھروکے سے


انڈیا کا یہ جدید شہر اپنے اندر صدیوں پرانی تاریخ کی نشانیاں بھی چھپائے ہوئے ہے ۔۔ یہاں کے اصل باشندے جو کولی کہلاتے تھے پیشے سے مچھوارے ہوا کرتے تھے وہ پتھر کے زمانے سے یہاں آباد تھے ۔۔ممبئی جو آج انڈیا کا اکانومی کیپیٹل کہلاتا یے 1000 قبل مسیح بھی فارس اور مصر سے آنے والے تاجروں کی توجہ کا مرکز تھا ۔پہلی صدی عیسوی سے دسویں صدی تک ممبئی اشوکا سلطنت اور چالوکیہ خاندان کے زیر حکومت رہا اس دور کی یادگاریں یہاں Elephanta Cave اور Kenhri Caves کی شکل میں نظر آتی ہیں ۔۔کینری کیو ممبئی کے بوریولی علاقہ میں ہے اور وہاں کا پُرسکون اور خنک ماحول ، بدھ دھرم کی نشانیاں آپ کو صدیوں پرانے دور میں پہنچا دیتے ہیں۔یادو سے لے کر چودہویں صدی کے سلطان بہادر شاہ تک ممبئی کئی حکمرانوں کی شان بڑھاتا رہا ۔۔چودہویں صدی میں یہ شہر گجرات کی مسلم ریاست کا حصہ بنا۔سولہیویں صدی میں پرتگیزیوں کے ہاتھ سے گذرتا 1668 میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے ہاتھ لگا۔ پرتگیز جہازراں فرانسسکو دی المیڈا نے ممبئی کے ساحل کو دیکھ کر اسے Bombay نام دیا ۔ لیکن ممبئی کی تقدیر بدلنے میں کچھ وقت تھا مراٹھا مغل، پرتگیز اور انگریزوں کی لڑائی میں ممبئی بس خاموش تماشائی تھا ۔۔1784 میں ممبئی کے گورنر ولیم بارنبی نے ایک لاکھ کی کثیر رقم خرچ کرکے ممبئی کے سات جزیروں کو جوڑ کر ایک شہر کی شکل دی ۔
مغلوں نے 1857 میں جہاں دہلی ہار دی وہیں ممبئی کے حصہ میں پہلی کاٹن مل آئی جس کا کریڈٹ کاوس جی کو جاتا ہے جس نے اسے اگلے تین سالوں میں انڈیا کی سب سے بڑی کاٹن مارکیٹ بنا دیا سو سے زائد ملوں کے ساتھ ممبئی کی کاٹن انڈسٹری اگلے سو سالوں تک پھلتی پھولتی رہی ۔
آخر 1982 کی مزدور ہڑتال نے اس سنہرے دور کو ختم کردیا لیکن یہ بند ملیں بھی ایک عرصہ تک ہندی فلموں کا حصہ بن کر اس دور کی یاد دلاتی رہیں ۔
اس ترقی کے ساتھ بے ترتیبی سے بڑھتی آبادی نے 1896 کے پلیگ جیسے مسائل بھی پیدا کئے ۔۔
ممبئی اس دور میں ممبئی پریزیڈنسی کا حصہ تھی۔۔جس میں گجرات کے کافی علاقہ ، کوکن ، صوبہ سندھ ، پورٹ آف کراچی ،یمن کا پورٹ آف عدن بھی شامل تھا ۔آزادی کے بعد بھی 1960 تک ممبئی سوراشٹر کا حصہ بنا ریا۔
معاشی سرگرمیوں کے علاؤہ ممبئی میں سیاسی سرگرمیاں بھی عروج پر تھیں 1885 میں انڈین نیشنل کالج کے پہلے سیشن سے لے کر Quit India Movement تک کی شروعات ممبئی سے ہوئی ۔انڈیا کا پہلا دو طرفہ ہائی وے بھی ممبئی میں بنا تھا جو نریمان پوائنٹ سے ملبار ہل تک تھا۔
برٹش دور کے ممبئی میں ہونے والی ایک اور اہم ڈیولپمنٹ 1874 میں بدرالدین طیب جی کی صدارت میں بننے والا انجمن اسلام نامی ادارہ ہے جو انڈیا میں بننے والا قدیم ترین مسلم تعلمیمی ادارہ ہے۔

تہذیبی ورثہ
ممبئی کی زبان مراٹھی ہے جو سنسکرت تیلگو اور کنڑا زبان سے پیدا ہوئی ہے ۔ممبئی کی چالیس فی صد آبادی یہ زبان بولتی ہے لیکن ممبئی میں ہندوستان کی ہر زبان سننے مل جاتی ہے ۔آج ممبئی میں جو زبان بولی جاتی ہے وہ اردو ،ہندی ،مراٹھی اور انگلش کا کچھ ایسا ملاجلا رنگ لئے ہوئے ہے کہ اسے کوئی نام دینا مشکل ہے ۔
ممبئی جس طرح تہذیبوں کی یادگار ہے اسی طرح یہ شہر مذہبی حوالوں سے بھی یادگار ہے یہاں پر تمام مذاہب کے ماننے والے صدیوں سے مل جل کر رہتے آئے ہیں اور اس وجہ سے اس تاریخ ساز شہر میں تمام مذاہب کی قدیم عبادت گاہیں صدیوں سے ہورے وقار کے ساتھ مذہبی ہم آہنگی کا سبق دیتی کھڑی ہیں۔
اسی طرح ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب اور مختلف مذاہب کی عبادت گاہیں ان کے تہوار سبھی کچھ یہاں بھرپور رنگ میں نظر آتے ہیں۔ممبئی کی اس رنگا رنگ تہذیب کے تانے بانے شاید اس کے مختلف حکمرانوں سے جڑے ہیں ۔کہیں مسلم حکمرانوں کی یادگار ممبئی کی مشہور درگاہ حاجی علی نظر آتی ہے تو کہیں پرتگیز دور کی نشانی ماہم کا سینٹ مائیکل چرچ کہیں مہا لکشمی کا مندر اور کہیں بدھ دھرم کے غار ہمیں ممبئی کی صدیوں پرانی تاریخ کی یاد دلاتے ہیں۔

ممبئی کے کلچر کا ایک خوبصورت پہلو یہاں منائے جانے والے تہوار ہیں ۔۔نیو ائیر سیلیبریشں سے شروع ہونے والا سال کرسمس ہر ختم ہونے سے پہلے کئی رنگ دکھاتا ہے ۔۔سنکرانتی یا پتنگ کا تہوار ،گڈی پاڑوا ہندؤں کا نیا سال ، پارسی نیو ائیر ، ہولی ، گوکل اشٹمی ، گنیش چترتھی ، رمضان، محرم، عید میلاد ، دیوالی ، نوراتری ۔تمام مذاہب کے تہوار ممبئی میں بڑے زور و شور سے منائے جاتے ہیں۔ ۔ان میں سے کئی عوامی سطح پر منائے جاتے ہیں ۔ جیسے گوکل اشٹمی میں سڑکوں پر ہانڈی باندھی جاتی ہے اور نوجوان لڑکوں کی ٹولی پرامڈ کی شکل میں ایک دوسرے کا کاندھوں پر سوار ہوکر اسے توڑتے ہیں ۔
گنیش چترتھی کا تہوار تاریخی طور پر قدیم وقتوں سے منایا جاتا تھا لیکن لوکمانیہ تلک نے 1893 میں اسے پبلک تہوار بنادیا ۔سڑکوں پر بڑے پنڈالوں میں مورتی سجائی جاتی ہے- جو چند فیٹ سے پچاس فیٹ تک اونچائی کی ہوتی ہے اور دسویں دن ان مورتیوں کے سمندر میں وسرجن کا بہت بڑا جلوس نکلتا ہے اور ممبئی کے مشہور ساحل چوپاٹی پر ہزاروں کا مجمع ہوتا ہے جو ان مورتیوں کو دیکھنے دور دور سے آتا ہے۔
اسی طرح رمضان میں ممبئی کے کچھ مخصوص علاقوں میں کھانے پینے کے اسٹال لگتے جو مغرب سے فجر کھلے ہوتے ہیں اور جن سے لطف اندوز ہونے لوگ ممبئی کے دور دراز علاقوں سے آتے ہیں ۔۔
ممبئی میں عید میلاد النبی پر نکلنے والے جلوس کی سو سالہ تاریخی اہمیت ہے۔ 1919 مولانا محمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی جوہر کی قیادت میں خلافت تحریک کی یادگار خلافت ہاؤس سے پہلا جلوس بطور قومی یک جہتی نکالا گیا تھا جس کی قیادت مہاتما گاندھی نے کی تھی ۔یہ جلوس اب بھی نکلتا ہے ۔ممبئی اور اس کے سبرب سے سیکڑوں سجے سجائے ٹرک مردوں اور بچوں سے بھر کر خلافت ہاؤس پہنچتے ہیں ۔جہاں تقاریر ہوتی ہیں اور آفیشلی جلوس کا آغاز ہوتا ۔ممبئی کے سرکردہ مسلمان لیڈران اور اکثر کچھ بڑی سیاسی ہستیاں اس میں شامل ہوتی ہیں وہاں سے ٹرکوں کا قافلہ مخصوص روٹ سے گزرتا ہے ۔ان راستوں پر مسلم اور غیر مسلم پھولوں سے اور کھانے پینے کی مختلف اشیاء تقسیم کرکے جلوس کا استقبال کرتے ہیں ۔
یہ مذہبی پروگرام روایات اور عبادات رواداری کے ساتھ صدیوں سے جاری ہیں یہ اس شہر کی حسن ہیں یوں محسوس ہوتا ہے جیسے تہوار کسی مذہب کا نہیں ہوتا بلکہ اس شہر کی ثقافت کا حصہ ہے۔
ممبئی میں انڈیا کی ہر ریاست کا کھانا مل جاتا ہے ساوتھ انڈین اڈیپی سے لے کر پنجابی ڈھابہ تک ۔گجراتی ڈھوکلے سے لے کر بنگالی رس گلے تک
یہاں راستہ پر چلتے پھرتے دس روپے والی چائے بھی مل جاتی ہے اور فینسی ریسٹورنٹ میں دو سو روپے کی چائے بھی لیکن ممبئی کی سب سے خاص چیز یہاں کا اسٹریٹ فوڈ ہے ۔ ہر بڑے شہر کی طرح یہاں راستے پر چلتے پھرتے کھانا عام ہے ۔۔ہر بازار ہر گلی کے کارنر پر کھانے پینے کی چیزیں دستیاب ہوتی ہیں ۔۔وڑا پاؤ ، پاؤ بھاجی ،گول گپے ، مسالہ ڈوسا، سیخ کباب، مختلف انداز کے سینڈوچز کے اسٹال ہر جگہ موجود ہوتے ہیں۔خوشبووں کے مسکن اس شہر کی فضاؤں میں ایک سحر انگیز کیفیت کمی وقت رہتی ہے یہاں بھانت بھانت کی صرف بولیاں نہیں بولی جاتیں بلکہ یہاں کھانے پینے کی ورائٹی حد درجہ ہے جو اس شہر کے باسیوں اور آنے والے مسافروں کو لبھاتی ہے۔

ممبئی فلم انڈسٹری


ممبئی کی فضاوں میں موسیقی بھری ہوئی محسوس ہوتی ہے۔یہاں پر ہواؤں میں سنگیت گونجتا ہے ۔فلم ،اسٹیج ، سٹوڈیوز ، فن فنکار، لکھاری ،گیت سنگیت شاعر اور خواب دیکھنے والے اس شہر کی ہر گلی میں موجود ہیں۔یہ شہر فلموں کی دنیا ہے یہاں سے اٹھی فلمی لہر نے ہندوستانی فلم انڈسٹری کو ہی دوام نہیں بخشا بلکہ اس انڈسٹری کو صنعت کا درجہ دے کر اس کو پوری دنیا میں پہنچایا ۔
انیسویں صدی کے آخر میں ممبئی میں ایک اور چیز کی ابتداء ہوئی جس نے ممبئی کی تقدیر بدل دی ہے وہ جولائی 1896 میں دکھائی جانے والی پہلی فلم تھی ۔اس کے بعد اگلے سترہ سال تک مختلف ڈاکیومنٹری اور لائیو ایونٹ کی فلمیں بن کر ممبئی کی عوام کی فلموں میں دلچسپی بڑھاتی رہیں ۔اور 9 مئی 1913 کو پہلی انڈین سائلنٹ فلم راجا ہریش چندر ریلیز ہوئی جسے انڈین فلم انڈسٹری کی بنیاد سمجھا جاتا ہے اگلے دس پندرہ سالوں میں یہ انڈسٹری سالانہ 200 فلمیں بنانے لگی۔۔1930 سے 1947 تک کا دور کافی سیاسی اور سرگرمیوں کا رہا اور فلم انڈسٹری بھی کسی نہ کسی طرح ان سب کا حصہ بنتی رہی ۔1947 سے 1960 کا دور ہندی فلم انڈسٹری کا گولڈن ایج کہلاتا ہے۔محبوب خان ، کے آصف ، راج کپور، نوکیتن اور گرودت جیسے کئی بڑے پروڈکشن ہاؤس چھائے رہے تو اداکاری کے میدان میں دلیپ کمار ،راج کپور اور دیو آنند کی شہرت ملکی سرحدوں سے نکل کر دوسرے دیشوں میں اپنا رنگ جمانے لگی ۔اگر کہا جائے تو ان دس سالوں میں ہندی فلم انڈسٹری نے اپنا وجود حاصل کیا اور ہندوستان میں فلم کے شعبے کو وہ عروج ملا جسے بعد میں کبھی زوال نہیں آیا تو یہ بے جا نہیں ہوگا۔
آج انڈین فلم انڈسٹری اگر دنیا کی سب بڑی فلم انڈسٹری کہلاتی ہے تو اس کے پیچھے بہت بڑا ہاتھ اس شہر ممبئی کا ہے جس نے فلموں اداکاروں کی نہ صرف خود کھیپ پیدا کی بلکہ باہر سے آنے والے فنکاروں اور آرٹ سے محبت کرنے والے انسانوں کو اپنے وسیع دامن میں جگہ دی۔یہ ممبئی شہر کی محبت اور جنون تھا جس نے فلم انڈسٹری کو مذہب کے بعد پورے ہندوستان کے ہر انسان کا شوق بنا دیا ۔اور اس شہر کی خوبی رہی کہ اس نے فلم انڈسٹری میں رنگ و نسل کے تعصب کا راستہ روکنے کی ہر ممکن کوشش کی یہاں پر برصغیر کے جس شہر سے بھی کوئی باصلاحیت انسان آیا وہ یہیں کا ہو گیا۔یہاں پر کامیابی کا انحصار ہمیشہ ٹیلنٹ پر رہا ۔دلیپ کمار، راج کپور ، شاہ رخ خان، انیل کپور جیسے فنکار پشاور سے یہاں پہنچے تو راجیش کھنہ ، دیو آنند ، راجندر کمار ، سنیل دت پنجاب سے ہجرت کرکے ممبئی کی آغوش میں پہنچے ۔
اس طرح یہاں ہر مسلمان ، ہندو، سکھ ، یہودی ، عیسائی الغرض کسی بھی مذہب سے تعلق رکھنے والا انسان کوئی ہنر لیے ممبئی کی روشنیوں میں آیا تو اس کا ہنر اور فن ممبئی نے ساری دنیا تک پہنچا دیا۔ اگر ممبئی ہندوستان کا عروس البلاد ہے تو ہندی فلم انڈسٹری کو تمام انڈسٹریز کا عروس البلاد کہا جا سکتا ہے ۔یہاں جو بھی خالی ہاتھ آیا اس کا ہاتھ اس شہر نے تھام کر کسی کو دلیپ کمار بنا دیا کسی کو شاہ رخ خان بنا دیا اور کسی کو راج کپور بنا دیا ۔
یہاں کے لوگ فلموں کو دیکھ کر جیتے ہیں ان کا رومانس فلمی پردے سے ایسا لازوال ہوتا ہے کہ وہ فلمی کلاکاروں میں اپنے بھگوان ڈھونڈ لیتے ہیں ۔اس شہرِ بے مثال میں فن و فنکار کی وہ عزت ہے جو شاید پوری دنیا میں کہیں نہیں ہے ۔یہاں ذرہ آتا ہے تو وہ آفتاب بن جاتا ہے ۔گمنام لوگ یہاں قسمت کی دیوی کی تلاش میں آتے ہیں پھر ان کے سر پر شہرت کا ہما ایسے بیٹھتا ہے کہ چہار عالم ان کی دھوم ہو جاتی ہے ۔ یہاں ہر گلی کی نکڑ پر کوئی دیوانہ خود کو کبھی شہزادہ سلیم سمجھ رہا ہوتا ہے تو کہیں پر کوئی راج کسی ثمرین کی تلاش میں سرگرداں ہوتا ہے۔

لوکل ٹرین


برٹش دور کا ممبئی کو دیا ایک اور تحفہ ممبئی کی ریلوے لائن ہے جو 16 اپریل 1853 میں شروع ہوئی اور ایشیا کی قدیم ترین ریلوے سسٹم ہے ۔ یہ ٹرین بوری بندر سے تھانے کے بیچ 34 کلومیٹر کی تھی ۔۔۔پہلی بجلی کی ٹرین 1925 میں چلی تھی ۔۔۔آج ممبئی ٹرین جو ممبئی شہر اور اس کے مضافات کے بیچ چلتی ہے وہ 390 کلومیٹر پر پھیلی ہے اور روز تقریبا 75 لاکھ لوگ اس میں سفر کرتے ہیں۔اور اس میں تقریبا 2300 ٹرینیں روز چلتی ہیں۔ممبئی میں دو اہم ریلوے لائن ہیں ۔ویسٹرن اور سنٹرل ۔سنٹرل لائن ممبئی کے پورٹ کو مختلف علاقوں سے جوڑتی ہے ۔
ممبئی کی آبادی اور ان ٹرینوں کی دور دراز پہنچ اور مناسب کرایوں کی وجہ سے یہ ٹرینیں ممبئی میں رہنے والوں کے حمل و نقل کا ایک اہم ذریعہ ہے ۔فیکٹری میں کام کرنے والے ورکرز ، کالج اسٹوڈنٹ مختلف سرکاری اور غیر سرکاری آفس میں کام کرنے والے لوگوں تک ان ٹرین میں ہر طبقہ کے لوگ سفر کرتے ہیں ۔ ٹرین کے سیکنڈ کلاس کمپارٹمنٹ میں اپنی ایک الگ دنیا بسی ہوتی ہے کہیں مختلف چیزیں بیچنے والے ہاکرز اور کہیں اپنی پڑھائی میں مشغول اسٹوڈنٹ اور کہیں گھر لوٹنے کی جلدی میں سبزی بناتی خواتین ۔کہیں گانے سنا کر بھیک مانگتے فقیر اور کہیں عبادت میں مشغول مرد۔ شاید کسی نئے شخص کے لئے یہ چیز حیرت انگیز ہو کہ ایسی کھچا کھچ بھری ٹرین میں جہاں سانس لینا دشوار لگتا ہے لوگ کس اطمینان سے اپنے کاموں میں مشغول زندگی کے معمولات پورے کر رہے ہوتے ہیں ۔
ان ٹرینوں میں سفر کرنے والی ایک اور حیرت انگیز قوم ہے جنہیں ممبی کا ڈبہ والا کہتے ہیں ۔۔یہ ایک ایسی آرگنائز سروس ہے جس پر بی بی سی اور کئی غیر ملکی چینلز پر ڈاکیومینٹری بن چکی ہے ۔۔یہ ڈبہ سروس والے مختلف گھروں سے کھانا لے کر ان کے دفاتر پہنچاتے ہیں ۔۔یہ ڈبوں مختلف ہاتھوں سے گذر کر اپنی منزل پر پہنچتے ہیں ۔ہر ٹرین اسٹیشن پر سیکڑوں ڈبوں کے کریٹ اتارے چڑھائے جاتے ہیں جہاں سے مختلف ذرائع سے یہ دفتروں تک پہنچتے ہیں۔ان کی سروس اتنی منظم ہے کہ شاذ ہی کسی کا ڈبہ کسی اور کو پہنچتا ہے۔

ممبئی کے کوچہ و بازار

سات جزیروں سے مل کر بنے ممبئی آج 600 کلومیٹر پر پھیلا ہوا ایک بڑا شہر ہے جس کی آبادی دو کروڑ کے قریب ہے لیکن اب بھی اکثر لوگ جب ممبئی کہتے تو اس سے مراد ساوتھ ممبئی اور اس کے آس پاس کا علاقہ ہوتا ہے جو قلابہ سے اندھیری تک کا علاقہ ہوتا ہے ۔
ممبئی کا آخری سرا قلابہ ہے جو ممبئی کے ابتدائی سات جزیروں میں سے ایک تھا ۔۔یہ علاقہ سمندر سے جڑا ہے اس لئے اس کا بڑا حصہ ممبئی نیوی کے انڈر میں اور ہائی سیکورٹی علاقہ ہے ۔۔یہیں ٹاٹا انسٹیٹیوٹ آف ریسرچ ہے جو ایک حساس ادارہ ہے جہاں کی شاندار عمارت ، لائبریری اور کمپیوٹرز ، لیب دیکھ کر یقین کرنا مشکل ہوتا ہے کہ یہ کسی غیر ممالک کا سینٹر نہ ہو کر ممبئی میں ہے ۔
قلابہ سے شمال کی طرف جائیں تو مشرق کی طرف برٹش دور کی یادگار گیٹ وے آف انڈیا ہے ۔۔جہاں سے بوٹ میں بیٹھ کر بحیرہ عرب کی سیر کرنا اور انڈین نیوی کے جہاز دیکھنے کا اپنا لطف ہے ۔۔گیٹ وے انڈیا کے سامنے ممبئی کا قدیم فائیو اسٹار ہوٹل تاج ہے۔۔
اور مغرب کی طرف نریمان پوائنٹ اور میرین ڈرائیو کا خوبصورت ساحلی ہے جسے کسی زمانے میں Queen’s Necklace کہا جاتا تھا۔۔اور آج بھی ٹورسٹ وہاں آتے ہیں ۔اس علاقہ میں ریوالونگ ٹیرس والا پرزیڈنٹ ہوٹل بھی ہے ۔
اس سے کچھ اور آگے بڑھیں تو ایک طرف چرچ گیٹ کا قدیم علاقہ ہے اور دوسری طرف ممبئی کا مشہور وکٹوریا ٹرمینل ہے جو آج چھترپتی شیواجی ٹرمینل کہلاتا ہے اور ممبئی کی سب سے اہم لینڈ مارک سمجھا جاتا یے ۔اس کے قریب ممبئی سچیوالہ کورٹ ، ممبئی ہائی کورٹ اور حج ہاؤس کئی اہم عمارتیں ہیں جن کے باعث اس علاقہ میں بےحساب رش ہوتا یے ۔۔ یہاں سے آگے فورٹ کا علاقہ ہے جہاں کی قدیم عمارتیں برٹش دور کی یاد دلاتی ہیں تو سڑکوں پر سجا فیشن اسٹریٹ کا بازار مارڈن انڈیا کی ۔۔یہاں 1833 میں بننے والی ٹاؤن ہال لائیبریری کی سفید شاندار بلڈنگ اور چوڑی سیڑھیاں بہت سی بالی ووڈ فلموں میں بطور کورٹ روم دکھائی گئی ہیں ۔اس سے کچھ آگے ممبئی کی مشہور دلال اسٹریٹ ہے جہاں ممبئی اسٹاک ایکسچینج ہے ۔انیسویں صدی کے درمیان میں ایک پیپل کے درخت کے نیچے شروع ہونے والا یہ ایکسچنج 1875 میں مکمل ہوا اور آج اس کی ویلیو دو trillion ڈالر سے اوپر ہے ۔
اس سے اور آگے کرافورڈ مارکیٹ کا علاقہ شروع ہوتا ہے جہاں پلاسٹک کی سستی چیزوں سے لے کر مہنگے ترین کپڑے، جوتے ،گھریلو سامان ہر قسم کا سامان ملتا ہے ۔ممبئی میں بنے بڑے بڑے مالز کے باوجود یہ علاقہ شاپنگ کے لحاظ سے اب بھی بہت مشہور ہے ۔شاپنگ کے علاؤہ لوگ یہاں کے مشہور فالودہ ، قیمہ سموسہ اور مسالہ ڈوسا کو انجوائے کرنے بھی آتے ہیں ۔

یہیں ممبئی کی اہم مساجد میں سے ایک جامعہ مسجد ہے جس کی بنیاد اٹھارویں صدی میں بنے ایک واٹر ٹینک پر رکھی گئی ۔۔مسجد کی عمارت انسیویں صدی کے آخر میں تکمیل تک پہنچی ۔ایک ایکڑ کے علاقہ پر پھیلی عمارت میں ڈیجیٹل لائبریری کے ساتھ کئی قدیم قرآنی نسخہ جات موجود ہیں ۔ اس سے کچھ آگے مبئی کا مشہور محمد علی روڈ اور مینارہ مسجد ہے ۔ممبئی کی یہ اسٹریٹ اکثر فلموں میں نظر آتی ہے یہاں دوسری بے حساب دکانوں کے ساتھ اسلامی اور اردو کتب کی بہت شاپس ہیں اور قرآن مجید چھاپنے والی قدیم ترین تاج کمپنی بھی یہیں ہے ۔یہاں رمضاں میں لگنے والا فوڈ بازار جہاں لاکھوں عام لوگوں کے لئے دلچسپی کا باعث ہے وہاں کئی سلیبریٹیز بھی یہاں کا چکر لگاتے نظر آتے ہیں۔
اس کے بعدممبئی کا سنٹرل علاقہ ہے جہاں ممبئی کے کئی مایہ ناز تھئیٹر ہیں ۔مراٹھا مندر جہاں “مغل اعظم” اور “دل والے دلہنیا لے جائیں گے” جیسی فلمیں ریلیز ہوئیں اور ،منروا جہاں برسوں تک “شعلے” لگی رہی ۔۔کسی زمانے میں یہاں ہر اسٹریٹ پر دو تین تھئیٹر ہوا کرتے تھے جو اب ملٹی پلیکسز اور پلازا میں بدل چکے ہیں ۔اسی علاقہ میں تاریخی انجمن اسلام گرلز ہائی اسکول بھی ہے جو 1885 میں بننے والا اردو کا پہلا گرلز اسکول ہے اور ایک سو تیس سال سے اسی معیار پر قائم ہے ۔
ممبئی سنٹرل سے مغربی ساحل کے ساتھ چلیں تو مہالکشمی اور ورلی کا علاقہ ہے ۔۔یہاں قدیم ممبئی کی جھلک دکھاتی بڑی دلچسپ چیزیں ہیں ۔ ایک طرف 1830 میں بننے والا مہالکشمی کا مندر جو ممبئی کا مشہور ترین مندر ہے تو دوسری طرف 1430 میں بننے والی حاجی علی کی درگاہ جو علی شاہ بخاری نامی ازبک صوفی کی یاد میں بنی ہے ۔۔ایک چھوٹے سے جزیرہ پر بنی یہ درگاہ انڈو اسلامک تعمیر کی خوبصورت مثال ہے ۔۔اس تک پہنچنے کا راستہ جو سمندر کے بیچ سے گذرتا ہے وہ دن کے مخصوص اوقات میں مکمل تہہ آب ہوجاتا ہے۔ ۔ان دونوں قدیم یادگاروں کے بیچ انسیویں صدی میں بنا دھوبی گھاٹ ہے جو گینیز بک آف ریکارڈ میں جگہ بنا چکا ہے ۔۔یہاں دن کے بیس گھنٹے میں سات ہزار لوگ کھلے میں ایک لاکھ کپڑے دھوتے ہیں اور اس سے ہونے والی سالانہ آمدنی سو کروڑ کے قریب ہے ۔۔ آزادی کے بعد سے نوے کی دہائی تک ورلی سی فیس کا علاقہ مشہور لوگوں کی رہائش گاہ رہا ہے ۔ ثریا سے گاوسکر تک کے بنگلہ یہاں ہوا کرتے تھے ۔یہیں سے ایک نیا راستہ سی لنک باندرہ کی طرف جاتا ہے جو فلم اسٹاروں اور بزنس مینوں کی رہائش گاہ ہونے کے باعث آج ممبئی کا مہنگا ترین علاقہ ہے۔۔
مغربی ساحل کے مقابلہ میں ممبئی کا مشرقی اور وسطی علاقہ پورٹ سے منسلک ہونے کے باعث مختلف فیکٹریوں اور انڈسٹریوں سے بھرا ہواہے۔ ان ہی کے بیچ ممبئی کی مشہور جھونپڑپٹی یا کچی آبادی ہے جو دھاراوی کہلاتی ہے ۔۔یہ ایشیا کی سب سے بڑی کچی آبادی ہے جو انیسویں صدی میں برٹش نے ایک ٹینری لگا کر بسائی تھی ۔۔ٹینری میں کام کرنے والے ورکرز سے بننے والی یہ کچی آبادی اب 520 ایکٹر پر پھیل چکی ہے اور اس کی آبادی تقریبا دس لاکھ کے قریب ہے۔ یہاں کی کاٹیج انڈسٹری کے کپڑوں ، چمڑے کی مصنوعات اور مٹی کے ہینڈی کرافٹ پر مشتمل ہے اس کے علاؤہ یہاں ری سائیکلنگ کا کام بھی ہوتا ہے اور ان سب سے ہونے والی سالانہ آمدنی اندازاً ایک بلین ڈالر کے قریب ہے۔اس سے پتہ چلتا ہے کہ ممبئی انڈیا کا اکانومی کیپیٹل کیوں کہلاتا ہے ممبئی کی صرف فلم انڈسٹری اور فیکٹریاں ہی نہیں بلکہ کچی آبادیاں بھی ملک کی اکانومی میں اہم رول ادا کرتے ہیں ۔۔

ممبئی شہر کبھی سوتا نہیں ۔یہاں کی لائف لائن یعنی لوکل ٹرین چوبیس گھنٹوں میں بمشکل دوگھنٹے کے لئے بند ہوتی ہے اور رات کے بارہ بجے بھی آپ کو ٹرین کے ڈبوں میں نائٹ شفٹ سے تھکی خواتین ،فیکٹری کے مزدور اور تقریبات سے لوٹتی فیملیز بلا خوف و خطر سفر کرتے نظر آتے ہیں ۔ نریمان پوائنٹ کے ساحل پر رات کے دو بجے بھی نوجوان خوش گپیاں کرتے دیکھے جاسکتے ہیں ۔رات کے تین بجے بھی بھوک لگنے پر آپ کو کسی نہ کسی سڑک پر کھانے کی گاڑیاں میسر ہوں گی ۔
ایک اور چیز جو ممبئی کلچر کا اہم جز ہے وہ “show must go on” والا رویہ ہے۔ اسی لئے چاہے شہر میں بیک وقت بم بلاسٹ ہوں، یا مانسون کے باعث سڑکوں پر سات آٹھ فیٹ پانی بھر جائے یا کوئی حادثہ ہوجائے یہاں کی زندگی نہیں رکتی ۔شاید دوسرے اسے اس شہر کی بےحسی سمجھیں لیکن ممبئی نے باشندوں کے لئے یہ جینے کا “بنداس” طریقہ ہے ۔۔
تضاد ہر بڑے شہر کا اہم حصہ ہوتا ہے ہے . نیویارک ہو لندن ہو یا استنبول ہر بڑے شہر کی بلند بالا عمارتوں ،تاریخی مقامات کے بیچ کئی اندھیری گلیاں اورٹوٹے پھوٹے مکان چھپے ہوتے ہیں ۔یہی حال ممبئی کا ہے لیکن ممبئی میں یہ تضاد بہت نمایاں ہے ۔ممبئی ائیر پورٹ پر لینڈ کرنے پر مسافر ایک طرف شاندار فائیو اور سیون اسٹار دیکھتا ہے تو دوسری طرف دور دور پھیلی کچی آبادی کی نیلی چھتیں اسے حیران کر دیتی ہیں ۔یہ تضاد ہر جگہ نظر آتا یے ۔اونچے اونچے خوبصورت مال کے سامنے کھلی چھوٹی چھوٹی دکانیں ۔۔سڑک کی ایک طرف خوبصورت کیفے دوسری طرف ثھیلوں پر بکتے گولے گنڈے ۔مہنگے ریسٹورنٹ میں ہزاروں کا کھانا کھاتے امیر لوگ اور انہیں ریسٹورنٹ کی پچھلی طرف وہاں کے بچے کچے کھانے سے اپنا پیٹ بھرتے غریبوں کی قطار۔۔
ان تمام تضادات کے باوجود یہ شہرِ محبت ہے یہاں پر آنے کے بعد کوئی غیر اور پرایا نہیں رہتا ۔ یہاں زندگی کی رفتار بہت تیز ہے لیکن اس سے بھی تیز اس شہر کا خلوص ہے جو انسان کو دنوں میں ایسے اپنا لیتا ہے کہ انسان خود کو یہاں صدیوں سے موجود سمجھتا ہے ۔۔۔
جب کوئی شخص خوابوں کی اس نگری میں پہلے پہل پہنچتا ہے تو یہاں کی چکا چوند ، بھاگ دوڑ اور انسانوں کا سمندر دیکھ کر کچھ حیران و پریشان ہو جاتا ہے ۔ لیکن پھر آہستہ آہستہ اسے پتا چلتا ہے کہ یہاں بھری ٹرین میں بھی لوگ روز نظر آنے والے چہروں کو یاد رکھتے ہیں اور نظر نہ آنے پر فکر مند ہوتے ہیں گلی کی نکڑ پر سگریٹ کی دکان والے کو آپ کا برانڈ اور قریبی ہوٹل کے بیرے کو آپ اور آپ کی پسند یاد رہتی ہے ۔چھوٹی چھوٹی کھولیوں والی چال میں رہنے والے لوگ ایک دوسرے کی خوشی غمی میں بنا کہے شامل ہوتے ہیں ۔ اس شہر میں آنے والا نوراتری ،رام لیلا ،عید کا میلا جو بھی تہوار یا ذائقہ وہ اپنے پیچھے چھوڑ آیا ہے یہاں اس کی کمی محسوس نہیں ہوتی اور آہستہ آہستہ وہ خود بھی اسی کلچر کا حصہ بنتا جاتا ہے اور اپنے خوابوں کو پورا کرنے کی جدوجہد میں لگ جاتا ہے پھر وہ کبھی گلزار ، نوشاد ،شاہ رخ خان اور ایم ایف حسین جیسا کلاکار اور کبھی انیل اگروال اور دھیروبھائی امبانی جیسا بزنس مین بن کر ممبئی کی تاریخ میں اپنا نام لکھوا لیتا ہے ۔
سخت جفاکش شہر میں انسان مسافر ہو یا اسی نگر کا باسی اس کی زندگی ایک نہ ختم ہونے والی بھاگ دوڑ کا حصہ ضرور بن جاتی ہے ۔لیکن اس تیز ترین زندگی میں جہاں انسان بہت کچھ پیچھے چھوڑ جاتا ہے وہیں پر اس شہر کی محبتیں، آسودگیاں اور رونقیں انسان کو جکڑ لیتی ہیں۔
یہ شہر انسان سے وقت چھین لیتا ہے لیکن انسان کو وقت کی قید سے آزاد بھی کر دیتا ہے ۔ انسان چند سالوں میں صدیوں کی ثقافت اور روایات کا خود کو امین سمجھنے لگتا ہے۔بدبودار اور تنگ گلیاں،مخصوص لب و لہجہ کے انسان، بلند و بالا عمارات کے بیچوں بیچ پنپتے خواب ، فٹ پاتھ پر زندگی کی رمق ، محلوں میں بچوں کا شور، اماں بوا آپا باجی دیدی کی صدائیں ، اس شہر کی پہچان ہیں۔یہ شہر خوابوں کی نگری ہے جہاں ہر نکڑ پر خالی ہاتھوں میں ارض و سما لیے بہت سے مجنوں کسی لیلیٰ کی تلاش میں سرگرداں ہوتے ہیں۔
اس شہر کی فضاؤں میں ایسی خوشبو بسی ہے جیسے پوا شہر صدیوں سے کسی مے خانے کا حصہ رہا ہو۔یہ خوشبوئیں اتنی اشتہا انگیز ہوتی ہیں کہ اس شہر میں پرویش کرنے والا اِن میں ایسے کھو جاتا ہے کہ وہ اسی شہر کی کسی گلی کا مکین بن جاتا ہے ۔خوشیوں غموں حادثات المیوں اور تاریخ کے ہزاروں واقعات کو اپنے سینے پر سہہ کر یہ شہر آج بھی محبت الفت اور یگانگی کا نام لیوا ہے ۔اس شہر کی ہواؤں میں بارود کی بو نہیں محبت کے نغمے گونجتے ہیں۔
یہی ممبئی ہے یہی اسی شہرِ بے مثل کی خاصیت ہے یہی اس کا ماضی ہے اور یہی اس شہر کا مستقبل ہے ۔قافلے قطار اندر قطار آج بھی اس طلسم نگری سے کچھ سمیٹنے چلے آ رہے ہیں اور اس شہر کا دامن کبھی تنگ نہیں ہوتا۔یہی ممبئی ہے ۔