منزل

دفتر کی کھڑکی سے باہر جھانکتی میری نگاہوں کے سامنے
دور سڑک پر ، سڑک کے کنارے پر
کتنی خوب صورتیاں کتنی تازگیاں کتنی شگفتگیاں
منہ کھولے کھڑی ہیں
ان کو دیکھ کر میں سوچ رہا ہوں
کیا یہی وہ سفر ہے
جس کی خاطر میں نے
سفر در سفر کئے ،کئی ہجر جھیلے
وصل بھی بہت پائے مگر
انتظار وصل اس سے بھی شدید
دیس سے اپنوں سے دور
بہت سے اپنوں کے بیچ
بہت سوں سے دور
میں ادھورا سا مکمل
میں مکمل سا ادھورا
میں کب سے سفر میں ہوں
کب تک سفر میں ہوں
میں ہوں کہاں میں ہوں کون
منزل کی تلاش میں بھٹکا ایک مسافر
جانے میری منزل کہاں ہے
جانے میری منزل کہاں ہے

مرزا صہیب اکرام