نسلوں کے دکھ کے راوی

نسلوں کے دکھ کے راوی – ابن صفی

تبسم حجازي/مرزا صہیب اکرام

ابن صفی جاسوسی ادب میں طبع زاد لکھنے والوں میں پہلا نام بھی ہیں اور بد قسمتی سے آخری معتبر حوالہ بھی.ان کی شہرت انڈوپاک کی فضاؤں سے دنیا میں وہاں وہاں پہنچی ہے جہاں جہاں اردو بولنے اور سمجھنے والے بستے ہیں .اس کی وجہ صرف یہ نہیں تھی کہ وہ سری ادب کے بانی تھے یا اردو ادب کے قاری کو جاسوسی کا نشہ پہلی بار ملا تھا . بلکہ انکی چار سو پھیلی مقبولیت کی وجہ ان کے قلم کی پختگی ، مزاح کی بے ساختگی  ، زبان کی چاشنی کے ساتھ ان کا دنیا جہاں کے مسائل کو اپنے ناولز کے صفحات پر بیان کرنا بھی تھا . انہوں نے جہاں خاندانی مسائل پر بات وہیں پر ان کے قلم سے انسانوں میں پائی جانے والی لالچ ہوس ضد انتقام کے قصے بھی قاری تک پہنچے . مگر یہ سب ان کے قلم کو آفاقی بنانے کے لئے کافی نہیں تھا . انہوں نے دنیا کی مختلف اقوام کا جائزہ اس قدر جاندار انداز میں لیا ہے اور انفرادی اور اجتماعی طور پر ایسا پوسٹ مارٹم کیا ہے کہ قاری دنیا میں پھیلی سیاسی ، معاشی ، معاشرتی ، لسانی عصبیتوں کو بھی جان پاتا ہے . رنگ و نسل کی بنیاد پر دنیا میں نفرت اور ظلم و جور تاریخ کا بھیانک حصہ ہیں. ہر دور میں انسان زبان اور رنگ کی بنیاد پر ظالم و مظلوم رہا ہے . کبھی کبھی صدیوں کے غم ، ظلم کا غصہ لیے بعض انسان اس کا بدلہ انفرادی طور پر ساری دنیا سے لینے نکل کھڑے ہوتے ہیں اور کبھی کوئی قوم ہی اپنے ماضی کی نفرت کو پال کر اتنا جوان کر لیتی ہے کہ ان سے امن عالم کو خطرات لاحق ہو جاتے ہیں . جب انسان جاسوسی ادب کا مطالعہ کرتا ہے جو بات ابن صفی کو دوسروں سے ممتاز کرتی ہے وہ یہی ہے کہ ان کے ہاں عالمی تاریخی حالات سے جنم لینی والی ایسی مظلوم اقوام اور افراد کے قصے بھی ملتے ہیں جو صرف فکشن کا حصہ نہیں ہیں بلکہ یہ انسانی تاریخ کا ایسا سیاہ باب ہیں جن کو کبھی بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا . 
عموما دنیا میں جرائم کی تین اہم و جہ بتائی جاتی ہے زر، زمین اور زن۔ابن صفی کے ناول میں بھی بہت سے مجرم ایسے نظر آئیں گے جن کے گناہ کی وجہ ان میں ایک تھی لیکن اس کے علاوہ مجرموں کی ایک ایسی صنف بھی جن کے گمراہ ہونے کی وجہ ان کا ذاتی دکھ نہ ہو کر اجتماعی المیہ تھا۔۔۔جس دور میں یہ ناول لکھے گئے ہیں وہ آج سے کافی مختلف تھا ، آئے دن دہشت پسندی کے واقعات ، خودکش دھماکہ اور پلین ہائی جیک جیسے واقعات عام نہیں تھے لیکن ابن صفی کی دوررس نگاہ نے اس آنے والے دور کی طرف اشارہ کردیا تھا کہ ملکی اور عالمی سطح پر ہونے والے مظالم کس قسم کے انتقامی جذبوں کی بنیاد بن جاتے ہیں اور کس حد خطرناک ہوسکتے ہیں ۔۔۔
آئیے ابن صفی کے ناولوں میں پائے جائے والے چند مجرموں کا 
جائزہ لیتے ہیں ۔
یڈلاوا۔۔۔۔۔۔لاطینی نسل کا انتقام سفید فام نسل سے خاص طور پر اسپینیوں سے 
ساواکا( کنگ چانک) / اوزاکا ( پرچھائیاں)۔۔۔جاپانی قوم کا انتقام امریکیوں سے
تین سنکی ۔۔۔۔جرمن یہودیوں کی نسل کا انتقام ۔۔ آریائی نسل کے جرمنوں سے لینے والے پروفیسر ریٹ ماونٹ اور ڈاکٹر برناڈ
جنگل کی شہریت کے مسوما اور مشامبا جیسے کردار۔۔جو سفید فاموں سے اپنے استحصال کا بدلہ لینا چاہتے ہیں.
ایڈلاوا جو خود نفرت خوف دہشت کی علامت ہے اس کے جرم کی داستان دنوں مہینوں پر محیط نہیں ہے بلکہ وہ صدیوں قبل ہوۓ مظالم کا بدلہ لینے میدان عمل میں آتا ہے . انسان جو خود مظلوم ہے جو انفرادی اور اجتماعی طور پر ظلم کی تیز چکی میں پس رہا ہے لیکن وہ اپنی ذات اپنی قوم اپنے رنگ کا بدلہ مخالف رنگ نسل سے جب لینے پر آتا ہے تو ظلم کی ایسی داستانیں رقم کرنا چاہتا ہے جس سے اس کے وجود پر صدیوں سے لگتے آ رہے زخموں کے لئے کچھ مرہم مہیا ہو سکے .وہ اپنی  زخمی روح اور ٹرپتے جسم کا سکون سفید فاموں کے وجود کو مٹا کر حاصل کرنا چاہتا ہے . اسکو خون میں ڈوبی لاشیں تریاق فراہم کرتی ہیں .
اس سیریز میں مجرم ایڈلاوا اجتماعی انتقام کے جذبہ کے تحت جرم کا راستہ اختیار کرتا ہے ،اور یہاں معاملہ صدیوں پرانا ہے ۔۔اس دور کا جب نوآبادیوں کی تلاش میں نکلے یورپی اقوام نے امریکہ کے براعظموں میں ظلم اور غارت گری مچائی تھی۔ پندھوریں اور سولہویں صدی میں جنوبی اور وسطی امریکہ میں انکا سلطنت ایکویڈور ،پیرو سے لے کر کولمبیا اور چلی تک پھیلی ہوئی تھی۔ 1532 میں اسپینی سپہ سالار فرانسیسکو پزا رو گو نزالویز نے انکا قوم پرحملہ کیا اور ان پر مظالم ڈھائے ۔ایڈلاوا کا تعلق اسی انکا قوم سے بتایا گیا ہے۔یہ تاریخی پس منظر ایڈلاوا کی سفید فام بلخصوص اسپینی نسل سے نفرت اور انتقام کا سبب ہوتا ہے.
عمران ایڈلاوا سے ٹکرا کر اسے ختم تو کر دیتا ہے لیکن قاری جانتا ہے کہ ایڈلاوا کا وجود صدیوں کے ظلم نتیجہ ہے . یہ اتنی جلدی ختم نہیں ہوگا . ایسے لوگ ہر زمانے میں ہر دور میں ہم دیکھتے آ رہے ہیں ان میں سے کچھ کا غم حقیقی ہوتا ہے . دنیا اپنے قیام سے آج تک رنگ نسل میں اس قدر بری طرح الجھی ہے کہ انسان نے انسان کو نوچ کھایا ہے . رنگ و نسل کی برتری کا فلسفہ انسان جے بد بخت ذہن میں اس بری طرح جما ہوا ہے کہ ہر دور میں ظلم و جور جاری رہتا ہے . اور تب جنم لیتے ہیں ایڈلاوا، جو دنیا کو جلا کر اپنے وجود کو سکون کی دولت عطا کرنا چاہتے ہیں .
دنیا میں طاقت اقتدار حکومت اختیار کے بھوکے جب بھی کسی قوم پر رہبر بنتے ہیں تب تباہی کسی ایک ملک کا نہیں بلکہ انسانیت کا مقدر بنتی ہے . دوسری عالمی جنگ میں امریکا بہادر نے جب جاپان پر ایٹم بم مارا تو لمحوں میں دو شہر ہزاروں انسان کا قبرستان بن گئے . جنگوں سے ہمیشہ ہی وحشتیں جنم لیتی ہیں لیکن بعض مظالم اس قدر سفاکانہ ہوتے ہیں کہ وہ مغلوب قوم چاہ کر بھی اپنے ذہنوں سے کھرچ نہیں پاتی . امریکا کا جاپان کو مارا گیا بم تاریخ انسانی کے بد ترین حملوں میں سے ایک حملہ تھا . یہ بم کسی جنگ کی جیت کے لئے نہیں تھا بلکہ یہ اپنی برتری کا ایسا اعلان  تھا جو ہزاروں معصوم انسانوں کو زندہ درگور کر کے کیا گیا تھا .  لیکن اس کے بعد یہ کیسے نا ہوتا کہ بطور قوم یا فرد کے تاریخ کے اس جان گزین ظلم کا بدلہ لینے کی نا سوچی جاتی . کنگ چانگ سیریز کا ساواکا اور پرچھائیاں سیریز کا اوزاکا دونوں جاپانی مختلف مجرم ہیں لیکن ان کا مقصد نصب العین ایک ہے ، طریقہ واردات بلکل الگ لیکن مقصد امریکا کے جاپان پر کئے گئے ظلم کا حساب لینا ہے . ہم دیکھتے ہیں کہ جنگ ختم بھی ہو جاۓ تو اس کے اثرات صدیوں تک باقی رہتے ہیں . کس کس طرح مجرم تنظیم اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لئے نوجوانوں کے ذہنوں میں نفرت کا ایک ایسا سیل رواں بھر دیتی ہیں کہ وہ چاہ کر اپنے اندر سے اس نفرت کو نکال نہیں پاتے . ایسے ہی ایک بد قسمت انسان کا نام اوزاکا تھا جو ایسے درندوں کے آہنی اور ناپاک ہاتھوں کا مجبور و بے بس کھلونا بن جاتا ہے جن کا مقصد صرف اپنے ذاتی مفاد سے جڑا ہوتا ہے . یہ سفاک قاتل معصوم اذہان میں رنگ نسل قوم کا ایسا زہر بھر دیتے ہیں کہ موت کے علاوہ ان کو ان کے نظریے سے کوئی پیچھے نہیں ہٹا سکتا . دوسری جانب ساواکا جیسے لوگ جو نفرت میں اس حد تک پل جاتے ہیں کہ ان کا مقصد بس آگ و خون ہوتا ہے . یہ دونوں کردار اپنے وطن پر ہونے والے ظلم کا بدلہ بڑے ظلم سے لینا چاہتے ہیں . لیکن وہ اپنے تیئیں معصوم بھی ہیں . 
تین سنکی کا پس منظر بھی دوسری عالمی جنگ سے جڑا ہے . جس میں یہودی تنظیم جو چند ایسے سر پھروں کا ٹولہ ہے . وہ ہٹلر کے نسل کش مظالم اور جبر کے بعد دہائیاں گزر جانے پر بھی اپنے اندر لگی آگ ٹھنڈی نہیں کر پاتے .ان کا مقصد جرمنز سے اپنی قوم پر ہوۓ ظلم کا ایسا حساب لینا ہوتا ہے جس کی گونج صدیوں تک سنائی دے . انسان نفرت غصہ حسد کی آگ میں اس قدر جھلس جاتا ہے کہ وہ کب مظلوم سے ظالم بن جاتا اسے معلوم ہی نہیں ہوتا . افراد کے جرائم کی سزا اقوام کو دینے کی ایسی سازشیں آج کی دنیا میں جا بجا دیکھی جا سکتی ہیں . عمران جو امن کا داعی ہے جو نفرت کی ہر علامت کو غلط سمجھتا ہے جو ظلم کی تمام قسموں کو غلیظ سمجھتا ہے وہ اس تنظیم سے ٹکرا جاتا ہے . 
جنگل کی شہریت میں بیان کیا گیا مسلہ وہی ہے انسان کے   وجود سے تب سے جڑا ہے جب سے انسان اس دنیا میں آیا ہے . کالے اور سفید کی جنگ ، سیاہ فام جو ہزاروں سالوں کی تذلیل ظلم جبر نفرت کا بدلہ لینے کے لئے کالی تنظیم یعنی زیرو لینڈ کے ایجنٹ بن جاتے ہیں . وہ یہ نہیں جانتے کہ ان کو بس استعمال کر کے پھینک دیا جاۓ گا . لیکن رنگ نسل اور نفرت کی آگ میں جلے مسوما اور مشامبا جیسے معصوم لوگ اپنی جان وار کر بھی اپنی تحریک کی حفاظت کا دم بھرتے ہیں . ان کو معلوم ہی نہیں کہ وہ اس کھیل کے بہت معمولی پیادے ہیں . وہ تو بس صدیوں کے استحصال کو بدلنے کی خواہش میں اس قدر کھو جاتے ہیں کہ ان کو کب مظلوم سے مجرم بنا دیا جاتا ان کو خود کو بھی معلوم نہیں ہوتا .
قتل قابیل اور ہابیل سے شروع ہوا . نفرت تو شیطان سے شروع ہوئی .رنگ و نسل کی بنیاد پر کم تر و افضل ہونے کا دور تب آیا جب انسان قبیلوں میں تقسیم ہوا. اس تقسیم کا مقصد تو ہر ایک کی الگ پہچان تھی مگر جب تقسیم اس قدر بڑی خلیج بن گئی جو انسان جنگل سے شہر کے سفر تک کبھی پاٹ نہیں سکا بلکہ یہ منہ زور گھوڑے کی طرح بس بھاگتی رہی . حسب نسب کی فضیلت سے قبیلہ  کی برتری پھر خطہ زمین کی بنیاد پر غرور و تکبر ، یہ ایک سلسلہ ہے جو جنگ کے انسان سے چلا اور شہروں کے بابو تک آن پہنچا . غار کے اندر بیٹھے انسان سے محلات تک آیا . جہالت سے نام نہاد تہذیب و تمدن تک آیا . انسان نے صدیوں کی تاریخ سے سبق حاصل کیا ہے کہ ہر فاتح قوم افضل اور ہر مغلوب قوم کم تر کہلاتی ہے . ذات پات کے نظام سے رنگ و نسل تک جاتے جاتے یہ تقسیم اتنی واضح ہو جاتی ہے کہ اس کو مٹا پانا یا چھپا پانا کسی طور ممکن نہیں ..اسی بے رحم سماجی تقسیم کے بعد جب انسانوں کے مختلف گروہوں کے ہاتھوں میں طاقت و اقتدار آیا تو انسان نے انسان پر ایسے ایسے ظلم کئے کہ عرش بھی کانپ اٹھا . انسانوں کو انسانوں نے اس طرح نوچا کہ گدھ بھی شرما گئے . ایسی ایسی خون ریزیاں ہوئیں کہ دریاوں کے رنگ بدل گئے . سفاکیت کی ایسی مثالیں قائم کی گئیں کہ درندوں نے اپنے بچے آغوش مادر میں چھپا لئے .
سماجی ترقی کے ساتھ یہ ظلم اور بڑھا اور اس کے بعد ایسی ایسی ہولناک جنگیں ہوئیں جس نے انسان کے جعلی و فرضی تہذیبی ڈھانچے کو زمیں بوس کر دیا . ان خون آشام لمحوں میں بعض اقوام ظالم اور بعض مظلومیت کے منصب پر فائز ہوئیں. 
جنگیں ختم ہو گئیں لیکن نفرت کی جنگ کبھی ختم نہیں ہوتی .ابن صفی نے اپنے بہت سے ناولز میں ان آفاقی مسائل کی بات کی ہے کہ کس طرح مظلوم قوموں کے معصوم باشندے نفرت اور غصہ کی وجہ سے خود ظلم کے راستے پر چل نکلتے ہیں . کبھی یہ لوگ ذاتی حیثیت میں اور کبھی اجتماعی شکل میں بدلہ میں آگ کا ایندھن بن جاتے ہیں . لیکن زخم خوردہ چور چور یہ لوگ جو صدیوں سے نفرت سہتے چلے آ رہے ہیں وہ اپنا راستہ نہیں بدلتے. وہ اپنے اندر نفرت کے جوالہ مکھی کو مخالف قوم کو مٹا کر لینا چاہتے ہیں .
یہ باتیں کوئی قصہ کہانی نہیں ہیں بلکہ ہم نے جیتی جاگتی آنکھوں سے ایسے واقعات دیکھے ہیں جب کوئی کالا بندوق اٹھا کر اعلان بغاوت کر دیتا ہے . جب عالمی جنگوں کے مظلوم و ظالم کسی نئی صف بندی میں پرانے زخموں کا حساب لینے کے لئے یکجا ہوتے ہیں . دنیا آج بھی اسی نہج پر ہے . بس انسان نے تعصب نفرت رنگ کا نام بدلنے کی کوشش کی ہے . آج بھی لسانی گروہ بندی عروج پر ہے . گورے کالے کی جنگ اب بھی کسی نہ کسی شکل میں باقی ہے . اب بھی لوگ بدلہ لے کر ظالم بننا اچھا سمجھتے ہیں . پوری دنیا میں نوجوانوں کو ایسی مختلف عصبیتوں کے خوشنما باغ دکھا کر اس کو استعمال کیا جاتا ہے .
ابن صفی نے تاریخ کا حال ، ماضی کے واقعات اور مستقبل کے انسان کا جو نقشہ کھینچا ہے افسوس جو درست ہے . آج کی دنیا ماضی سے کہیں زیادہ تقسیم ہے .آج کا انسان ماضی کے انسان سے کہیں ظالم ، آج ہر قوم بس انتظار میں ہے کہ کب موقع ملے اور وہ دنیا پر دہشت کا راج قائم کر کے اپنا سکہ جاری کرئے . ان نفرت انگیز حالات میں اگر مستقبل کا انسان دوبارہ سے ساواکا ، ایڈلاوا، اوزکا ، مسوما ، مشامبا دیکھے گا تو یہ مقام حیرت نہیں بلکہ آج کی عالمی طاقتوں کی اقتداری رسہ کشی کا نتیجہ ہوگا . آج کے انسان نے اگر نفرت کے بیج کو مذید سینچا تو وہ وقت دور نہیں جب یہ دنیا جہنم کا نمونہ بن جاۓ گی اور اس دور کا انسان ظلم کی وہ داستانیں رقم کرے گا کہ دنیا ماضی کے عبرت ناک قصے بھول جاۓ گی .