وہ جس کی زبان اردو کی طرح

وہ جس کی زبان اردو کی طرح
تبسم حجازی

آج کے دور میں جہاں اردو کے ساتھ ہر سطح پر نا انصافی ہورہی ہے ، اردو رسم الخط کو ختم کرنے کی بات کی جاتی ہے ۔ایک طبقہ اردو نہ جاننے کو باعث فخر سمجھتا ہے وہاں ایک شخص ہے جو بڑے میٹھے لہجہ میں کہتا ہے
 یہ کیسا عشق ہے اردو زبان کا
مزہ ہے گھلتا ہے لفظوں کا زبان پر

یہ نرم اور مسکراتے لہجے بولنے والے گلزار ہیں جن کی وجہ شہرت ہندی فلموں کے گیت ہیں لیکن وہ اردو کے عشق میں مبتلا ہیں ۔ شاعر گیت کار ، رائٹر ،ڈائریکٹر اور پروڈیوسر گلزار ایک ہم جہت شخصیت ہیں۔
آنکھوں کو ویزہ نہیں لگتا
سپنوں کی سرحد ہوتی نہیں
بند آنکھوں سے روز میں سرحد پار چلا جاتا ہوں
ملنے مہدی حسن سے

سمپورن سنگھ کارلا (گلزار) 18 اگست 1936 کو برٹش انڈیا کے دینہ گاؤں (جہلم ڈسٹرکٹ) میں ایک سکھ فیملی میں پیدا ہوئے ۔ان کی فیملی نے بھی ہجرت کا دکھ جھیلا جس کا اثر ان کی شاعری میں نظر آتا ہے ۔۔ان کی فیملی امرتسر آگئی لیکن گلزار اپنے خوابوں کو پورا کرنے ممبئی آ پہنچے . جہاں انہوں نے ایک گیراج میں گاڑیوں کو پینٹ کرنے کام شروع کیا ۔اس کے ساتھ وہ اپنے شوق کی تکمیل کے لئے انجمن ترقی پسند مصنفین سے جڑ گئے۔جہاں سے شیلندر اور بمل رائے کے ساتھ نے انھیں بالآخر ہندی فلموں تک پہنچا دیا ۔اور 1963 میں گلزار نے بندھنی فلم کے لیے پہلا گیت لکھا مورا گورا رنگ لے لے” فلمی دنیا میں گلزار کی اس اینٹری کے بعد یہ سفر 58 سالوں سے جاری ہے۔۔گلزار نے کیریئر کی ابتدا بطور گیت کار کی اس کے بعد ڈائلاگ لکھے پھر کہانیاں اور ستر کی دہائی میں ڈائریکشن بھی شروع کی لیکن جو بھی کام کیا اس میں ان کی ادب سے محبت ہمیشہ نظر آتی ہے ۔اس کے علاؤہ گلزار کی اردو اور پنجابی شاعری کے تین مجموعے “چاند پکھراج کا” ، ” رات پشمینے کی ” اور ” پندرہ پانچ پچھتر ” آچکے ہیں ۔۔اور مختصر کہانیوں کے مجموعے “راوی پار” اور “دھواں” بھی شائع ہوچکے ہیں۔
سو سے زائد فلمیں میں گیت لکھنے والے اور پچیس سے زائد فلموں کی ڈائریکشن کے علاؤہ گلزار کے شاندار کیریئر کا ایک اور تمغہ “مرزا غالب ” سیریل بھی ہے ۔ان ساری کامیابیوں کو صرف عوام نے ہی نہیں سراہا بلکہ ایوارڈ اور اعزازات کی بھی ایک لمبی قطار ہے جو گلزار کے نام سے جڑی ہیں پدم بھوشن سے لے کر ساہتیہ اکادمی ایوارڈ ۔5 نیشنل ایوارڈ 22 فلم فئیر ، دادا صاحب پھالکے ایوارڈ تک ہی نہیں بلکہ ایک آسکر اور ایک گریمی ایوارڈ بھی گلزار حاصل کر چکے ہیں ۔
گلزار نے جتنی بھی فلمیں بنائی ان کی کہانیاں ہمیشہ کسی نہ کسی زبان کے ادب آئیں۔۔چاہے وہ شیکسپئیر کے کامیڈی آف ایرر پر بنی کلاسک “انگور” فلم ہو یا ساؤنڈ آف میوزک سے متاثرہ “پریچئے” یا پھر انسانی رشتوں کی پچیدگی پر بنیں “موسم” ، “اجازت ” اور “خوشبو” جیسی فلمیں ۔گلزار نے ڈائریکشن کی ابتدا “میرے اپنے” سے کی تھی جو بے روزگاری کے موضوع پر تھی لیکن ان کی دسترس سے کوئی موضوع نہیں بچا ۔۔ایک طرف “آندھی ” ، “ماچس ” ، “ہو تو تو” جیسی سیاسی فلمیں ہیں تو دوسری طرف “کوشش” اور “میرا ” جیسی حساس فلمیں بھی ۔۔گلزار کی فلموں کا ایک اسٹرانگ پوائنٹ فلیش بیک کی تکنیک ہوتا یے اور ڈبل فلیش بیک کی تکنیک جو گلزار نے اپنی فلم “اچانک ” ( ناناوتی کیس ) میں استعمال کی ہے وہ فلم انسٹیٹیوٹ میں ایک سبق کے طور پر دکھایا جاتا ہے ۔

بطور گیت کار گلزار نے بچوں کے گیت سے لے کر آئٹیم نمبر تک ہر چیز لکھی ہے ۔ رومانی ، فلسفیانہ ، طنزیہ ہر انداز کے گیت گلزار کی فہرست میں نظر آتے ہیں۔
بچپن کی معصومیت کے لئے گیت” لکڑی کی کاٹھی ” اور ” جنگل جنگل پتہ ہے” ہر کسی کو اپنے بچپن کے دور میں پہنچا دیتے ہیں ۔تو دوسری طرف فلسفیانہ “آنے والا پل جانے والا ہے ” اور ” تجھ سے ناراض نہیں۔ زندگی حیراں ہوں میں ” جیسے گانے سنجیدہ کردیتے ہیں ۔جب وہ رومانٹک گیت لکھتے ہیں تو ” تیرے بنا زندگی سے شکوہ تو نہیں۔” اور “میں نے تیرے لئیے ہی سات رنگ کے سپنے چنے ” جیسے الفاظ سے دل کو چھو لیتے ہیں ۔۔لیکن گلزار کی سب سے اہم خوبی یا کچھ لوگوں کے نزدیک خامی ان کا منفرد تخیل اور اس تخیل کو بیان کرتی اصطلاحات ہیں ۔گلزار کو شہرت جس گیت سے ملی وہ تھا۔

” ہم نے دیکھی ہے ان آنکھوں کی مہکتی خوشبو
ہاتھ سے چھو کر اسے رشتوں کا الزام نہ دو” ( خاموشی)
آندھی فلم کا یہ گیت جس کے الفاظ کچھ لوگوں کو الجھن میں ڈال دیتے ہیںں۔۔۔
” اس موڑ سے جاتے ہیں
کچھ سست قدم رستے
کچھ تیز قدم راہیں ”
غالب کے مصرعہ پر بہت لکھا گیت
“دل ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کے رات دن” (موسم)
میں جب گلزار اپنی خواہش بتاتے ہیں
” برفیلی سردیوں میں کسی بھی پہاڑ پر
وادی میں گونجتی ہوئی خاموشیاں سنیں”
تو پر کسی کا دل ایسی فرصت پانے کے لئے مچل جاتا یے ۔۔
محبوب کی تعریف کون اس انداز میں کرسکتا ہے
یار میرا خوشبو کی طرح
جس کی زبان اردو کی طرح (دل سے)
یا
تیری باتوں میں قوام کی خوشبو ہے
تیرا آنا بھی گرمیوں کی لو ہے ( بنٹی اور ببلی) ۔
لیکن جب گلزار حکومت ، سیاست دانوں یا معاشرے کی ناانصافی پر طنز کرتے ہیں تو لہجہ مبہم نہیں ہوتا بلکہ سخت ہوتا ہے ۔۔۔

” بندوبست ہے زبردست ہے
ہمارا حکمراں بڑا کم بخت ہے
سمئے برابر کر دیتا ہے سمئے کے ہاتھ میں آری ہے
وقت سے پنجہ مت لینا , وقت کا پنجہ بھاری ہے “
ان فلمی گیتوں کے علاؤہ گلزار کی لکھی غیر فلمی نظمیں اور گیت بھی کم شاندار نہیں ہیں ۔۔ درد چاہے کتابوں کا ہو یا ایک عام آدمی مراری لال کا گلزار کے بیان کا ڈھنگ انوکھا ہے ۔

” کتابیں جھانکتی ہیں
بند ا الماری کے شیشوں سے
بڑی حسرت سے تکتی ہیں
مہینوں اب ملاقات نہیں ہوتی “

” مراری لال کے ماتھے سے بل نہیں جاتے
مراری لال کہتے ہیں
زمانہ بدلا بھی تو کیا بدلا آخر
فقط کچھ نوٹ بدلے ،کچھ نوٹوں کے رنگ بدلے
کئی سڑکوں کے نام، اسٹیشنوں کے بورڈ بدلے
کچھ کاروں کے ماڈل
کنہیا، چھولے والا چھولے ہی تو بیچ رہا ہے نا پٹری پر”

ڈھیروں کامیابیاں اور اعزازات سے ہٹ کر جو چیز گلزار کو سب سے الگ بناتی ہے وہ ان کا دھیما لہجہ ، عاجزی اور انکساری ہے ۔ گلزار کو سننا بھی اتنا ہی اچھا تجربہ ہے جتنا ان کی رنگارنگ شاعری پڑھنا۔
انھیں سن کر محسوس ہوتا ہے کہ وہ جب سرحدوں کے فاصلے اور محبتوں کی بات کرتے ہیں تو یہ صرف لفاظی نہیں ہوتی بلکہ ہجرت کا دکھ جھیلنے والے ایک انسان کا درد اور انسانیت سے محبت کرنے والا ایک سچا انسان بول رہا ہے
خوبصورت اور منفرد گیتوں ،نظموں اور فلموں کے خالق گلزار نے 18 اگست 2021 کو زندگی کی پچاسی بہاریں دیکھ لی ہیں۔۔
دعا ہے کہ آئندہ آنے والے سالوں میں بھی وہ یوں ہی محبت اور خوشیاں بانٹتے رہیں۔