ٌThe Lost World

تبسم حجازی

میں اکتشاف کی ہجرت بہشت سے لایا 
مری تلاش میں میرا مقام لکھا تھا 
وطن دیس پردیس اپنے پرائے دور قریب خوشیاں غم مٹی کی خوشبو یہ سب وہ علامتیں ہیں جن کی اہمیت قدر انسان کو بنا تجربات کے حاصل نہیں ہوتی ۔ قید کے بنا آزادی کی نعمت کوئی کیا جان سکتا ہے ۔ بھوکا ہی روٹی کے نوالے کا حق ادا کرتا ہے ۔ انسان دنیا میں ابتدا سے اب تک مختلف قسم کے حالات سے نبردآزما ہے ۔ اسے پہلے جنگلوں سے غاروں کا سفر کرنا پڑا پھر وہ غاروں سے دیہات میں پہنچا ۔وہاں سے قصبوں کی شکل سے گذر کر شہر بسائے ۔ پھر اس نے ریاستوں کی تشکیل کے مراحل دیکھے ۔ انسان نے ننگ دھڑنگ سے پتوں کے لباس کا سفر کیا اور پھر اس کر بعد ایک وقت وہ بھی آیا کہ ریشم کی قبا نے ٹاٹ کے پیوند کی جگہ لی۔
وقت کی بے رحمی نے بہت سی پردیسی اقوام کو صدیوں کے سفر کے بعد دیسی بنا دیا اور دیسی لوگ کسی اور جگہ پردیسی قرار پائے ۔ انسان نے اپنے وحشی پن سے جس خون ریزی کا آغاز کیا اور رزق کمانے کی جگہ چھینے کے شوق کی خاطر کئی علاقے اور زمینیں بدل ڈالیں ۔وقت نے انسان کو تہذیب و آداب کے سانچے میں ڈھالا ۔ دنیا نے جنگل اور وحشت کے ادوار کی جگہ عقل و خرد کا دامن تھاما تو قبیلوں بستیوں اور قوموں نے اپنی بقا کہ خاطر بنجر زمینوں سے زرخیر علاقوں کی جانب کئی بار کوچ کیا۔ 
انسان کا یہ سفر صرف خوراک اور رزق کے حصول کے لیے نہیں تھا بلکہ یہ انسانی تمدن کا سفر تھا ۔ اس لئے انسان نے یہاں تک آنے میں صدیاں گزار دی ہیں ۔ انسان تو انسان , چرند پرند بھی ہر دور میں خشک سالی اور سوکھے سے بھاگ کر پانی اور سبزے کی تلاش میں مارے مارے پھرا کرتے تھے ۔
انسان نے ہجرت کے بہت دکھ جھیلے ،مصائب سے آشکار ہوا اور موسموں کی سختیاں اس پر بیت گئیں ۔ جب انسان کو حالات و واقعات اور مسائل نے وہ جگہیں چھڑوا دیں جہاں مٹی کی خوشبو اور اجداد کی قبور ہوا کرتی ہیں   تب دنیا کے ہر خطے کے شاعر اور ادیبوں نے ان تجربات اور جان لیوا حادثات پر قلم اٹھائے اور دکھ درد اور تکالیف کو ایسے بیان کیا کہ وہ انسانیت کے المیے بن گئے ۔ ہجرت جہاں کچھ خوشیاں لاتی ہے اور انسان دائرے سے سمندر میں داخل ہوا ۔ اس نے جنگلوں صحراؤں ، بیابانوں کر سینے چاک کیے اس نے پہاڑوں اور برفیلے میدانوں کو شکست فاش دی اور پھر دریاؤں اور سمندروں کو چیر کر وہ جہاں جہاں پہنچا وہاں ایک نئی دنیا بسائی لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایک دنیا اپنے ذہن کے نہاں خانوں میں زندہ رکھی جس کو وہ کسی نا کسی وجہ سے چھوڑ آیا تھا ۔ اس نے خوشیاں چہرے پر سجا کر غموں کو سینے سے لگا لیا ۔وہ آنے والے ان دیکھ مسرت بھرے لمحات پر اپنا آج قربان کرتا رہتا  ۔ کبھی اس نے یہ سب خود کیا اور کبھی اسے وطن سے جبراً دربدر کیا گیا لیکن انسان جب جب ہجرت کا مسافر بنا وہ بٹتا رہا ۔اور اپنی تکمیل کی ادھوری خواہش کے ساتھ مٹتا رہا لیکن  بہت سوں کے خوابوں کو پورا کرتا وہ اپنے چند خواب قربان کرتا رہا۔
یوں تو ہجرت کا عمل انسان کی تخلیق کے ساتھ ہی شروع ہوگیا تھا حضرت آدم کی جنت سے کی گئی ہجرت کے بعد آج بھی ابن آدم اپنے اصل مقام پر لوٹنے کے لئے کوشاں ہے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ہجرت کی وجوہات اور ذرائع بدلتے رہے ہیں ۔کچھ ہجرتیں انفرادی کہی جاسکتی ہیں جہاں لوگوں نے زندگی کی خوشیوں کو پانے کے لئے اپنوں سے دوری کا راستہ چنا اور کچھ اجتماعی ۔۔جہاں حالات نے ایک پوری قوم کو اپنی مٹی سے دور ہونے مجبور کردیا ۔ہجرت ہمیشہ دکھ ہی دیتی ہے لیکن اجتماعی ہجرتیں عموما خون آلود اور جان لیوا ثابت ہوئیں ہیں۔ کبھی یہ ہجرت کسی ظالم کے عتاب سے بچنے کی گئی اور کبھی اپنی شناخت بچانے کے لئے وطن سے دور ہونا پڑا اور کبھی فکر معاش نے انسان کو دربدر کیا اور کبھی اپنی آنے والی نسلوں کے تابناک مستقبل کی خواہش نے لاکھوں انسانوں کو صحراؤں کی خاک چھاننے پر مجبور کیا۔۔
 جس زمانے میں حمل و نقل کے ذرائع اونٹوں کے کارواں اور پانی کے جہاز تھے اور سفر ہفتوں اور مہینوں پر محیط ہوتے تھے تب اکثر یہ ہجرت  دائمی ہوا کرتی تھی۔
 دنیا کی چند مشہور ہجرتیں ایسی ہیں جنہوں نے قوموں کی تاریخ بدل دیں ۔۔۔قدیم ترین ہجرت حضرت موسیٰ اور بنی اسرائیل نے فرعون مصر کے ظلم سے محفوظ رہنے کے لئے کی تھی جس کا ذکر تین بڑی آسمانی کتب میں موجود ہے اور اس کا اثر آج بھی مڈل ایسٹ پر نظر آتا یے ۔۔۔
 دوسری  صدی عیسوی میں عیسائیوں کی بڑی تعداد مڈل ایسٹ سے آرمینیا کی طرف مائل بسفر ہوئی۔ اسی ہجرت کے نتیجے میں چوتھی صدی عیسوی میں پہلی عیسائی ریاست کا جنم ہوا۔
 سن 622 میں ہونے والی ہجرت انسانی تاریخ کی اہم ترین ہجرت ہے جو رسول اللہ نے مکہ سے مدینہ کی ۔۔یہ ہجرت دراصل بہت سی ٹکڑوں میں ہونے والی ہجرتوں کا اہم موڑ تھی اس سے پہلے مکہ کے کچھ مسلمانوں نے ظلم و ستم سے بچنے کے لئے حبشہ کی طرف ہجرت کی لیکن مسلمانوں کی تاریخ جس واقعے سے بدلی وہ ہجرت مدینہ تھی ۔۔۔
 انیسویں صدی کے آخر میں امریکہ کی آزادی اور پھر  کیلی فورنیا میں سونے کی دریافت نے ساری دنیا کے لوگوں کو  ایسے اپنی طرف کھینچا جیسے مقناطیس لوہے کو ۔۔نا صرف امریکہ کی دوسری ریاستوں سے لوگ کیلی فورنیا پہنچے بلکہ مشرق بعید سے کے کر لاطینی امریکہ تک سے لوگ “امریکن ڈریم” کی تعبیر ڈھونڈنے امریکہ کی جانب عازم سفر ہوئے اور یہ مائیگریشن بیسویں صدی کی ابتدا تک جاری رہا ۔
بیسویں صدی کے اوائل میں چند ہجرتیں جو اجتماعی ہونے کے باوجود اتنی بڑی نہ تھی ان میں سے ایک 1922 میں  ہندوستانی مسلمانوں کی افغانستان کی طرف کی گئی ہجرت ہے جو خلافت عثمانیہ کے خاتمہ کے رد عمل کے طور پے شروع ہوئی تھی ۔اس ہجرت نے مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کو رنج و الم کے سوا کچھ نہیں دیا تھا ۔
لیکن اسی صدی میں انسان نے دنیا کی سب بڑی اور خونی ہجرت دیکھی ہے۔۔جب تقسیم ہند کے نتیجے میں 1947 میں نوزائیدہ مملکتوں انڈیا پاکستان کی جانب ہوئی ۔برٹش راج سے برصغیر کو ملی آزادی لہو میں نہائی ہوئی تھی۔ لاکھوں لوگ آنکھوں میں آزادی کے خواب سجائے ہوئے اپنے آباد اور خوشحال گھروں کو چھوڑ کر نکل کھڑے ہوئے ۔ لاکھوں انسانوں کی موت اور کروڑ ہا انسان کے اس سفر نے ایسے انسانی المیے کو جنم دیا جس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی ۔ تقیسم ہند کے دوران ہونے والی خون ریزی اور انسان کا شیطانی روپ اور مذہب کے نام پر کھلنے والے مذبح خانے آج تاریخ کا حصہ ہیں لیکن ان کا خمیازہ ہر آنے والی نسل چکا رہی ہے ۔بے گناہ مظلوم انسانوں کے خون سے دریاؤں کے رنگ بھی بدلے اور خون کا رنگ بدلتے بھی انسان نے جاگتی آنکھوں سے دیکھا ۔ان خون آشام راتوں سے قبل عورت کی عزت اور انسانی زندگی کی اس قدر بے وقعتی کم ہی دیکھی گئی تھی۔ 
دو بڑے صوبہ بنگال اور پنجاب کے ٹکڑے ہوئے تقریبا دو کروڑ لوگ دربدر ہوئے اور بیس لاکھ کے قریب جانیں گئیں ۔۔اس مائیگریشن میں بہت سا جانی،  مالی اور جذباتی الغرض ہر طرح کا خسارہ ہوا ۔۔۔خاندانوں کا بٹوارا ہوا بھائی بھائی سے جدا ہوگیا لوگ اپنی جائے پیدائش اور آبائی گھروں اور لوگوں سے ملنے کے لئے برسوں ترستے رہے ۔آج اس ہجرت میں شامل لوگ بہت کم رہ گئے ہیں لیکن اس درد کی کہانیاں اب بھی لکھی اور پڑھی جاتی ہیں۔
اسی صدی میں سیاسی تبدیلیوں اور ٹیکنالوجی سے دنیا میں بہت تبدیلیاں آئیں ۔۔جس نے ہجرت کے مفہوم و مقاصد بدل ڈالے پانی کے راستے جو سفر ہفتوں اور مہینوں میں طئے ہوتا تھا ۔۔فضائی سفر نے اسے گھنٹوں میں بدل دیا ۔۔۔اسی لئے جب 1960 میں مڈل ایسٹ میں تیل کی دریافت ہوئی تو کیلی فورنیا گولڈ رش کی طرح دنیا کے لوگ اس سیاہ سونے کی چمک سے مڈل ایسٹ کی طرف کھنچتے چلے گئے اور وہاں کے ریگستانوں کو اپنے خون پسینے سے نخلستان بنانے میں جٹ گئے۔ بدلے میں ان کے اپنے درہم اور ریالوں سے زندگی کو آسان بنانے لگے ۔ستر اور اسی کی دہائی میں مڈل ایسٹ کی آبادی میں انڈین پاکستان اور مشرق بعید کے مہاجروں کی تعداد اصل آبادی سے کہیں زیادہ ہوگئی ۔۔
لیکن ابھی اس صدی کا ایک اور بڑا انقلاب باقی تھا ۔۔سلیکان کی دریافت اور پھر کمپیوٹر اور انٹرنیٹ نے جس طرح دنیا کا نقشہ ہی بدل دیا اس کی گواہ موجودہ نسل خود ہے ۔۔اس ٹیکنالوجی نے امریکہ میں بے حساب نئے روزگار کے مواقع پیدا کئے اور دنیا بھر کے ذہین دماغوں کو امریکہ کی طرف ہجرت کے لئے مجبور کردیا ۔اور ان ذہین امیگرنٹس نے ٹیکنالوجی کی دنیا میں بڑے بڑے کارہائے نمایاں انجام دئیے اور دنیا کو ایک گلوبل ولیج بنا دیا ۔۔
کریں ہجرت تو خاک شہر بھی جز دان میں رکھ لیں 
چلیں گھر سے تو گھر کیا یاد بھی سامان میں رکھ لیں 
بظاہر یہ ہجرتیں ترقی آسانی اور مستقبل کی سنہری تعبیر کی خواہش کی وجہ سے تھیں ۔ انسان کی اس ہجرت نے لاکھوں چہروں پر مسکان بکھیری ۔ بہت سے گھر آباد ہوئے ۔انفرادی زندگی میں انسان نے بہت سے سنگ میل عبور کیے اور ان تجربات کو دور سے دیکھنے والوں نے اس کو خوشنما قرار دیا ۔ لیکن روزگار  وسائل کی فراوانی اور ان دیکھے مستقبل کو محفوظ کرنے کے لیے کی جانے والی ان ہجرتوں نے بھی انفرادی سطح پر انسان سے ہمیشہ قربانی ہی مانگی ہے ۔ ہر وہ انسان جس نے  وطن مٹی اور اپنوں کی جدائی اختیار کی ۔ وہ جس کرب و بلا سے گزرا اس نے کتنی قید تنہائی کاٹی ۔ کتنی عیدیں ، دیوالیاں ، شبراتیں ، اور تہوار اس نے آنسوں میں کاٹے اس کا اندازہ  وطن میں اپنوں کے سنگ جینے والے کبھی نہیں کر پاتے ۔ ڈالر ریال دینار پاؤنڈ ، گھر بار کی ترقی اور اپنوں کے چہروں پر مسکان دیکھنے کی قیمت ہر مسافر  کیسے چکاتا ہے اس پر کبھی سوچا نہیں گیا ۔اپنوں سے دور گمنام لوگوں میں انجان شہروں میں نئی اقدار اور روایات کے سنگ سڑکوں پر چلتے ہزاروں کے ہجوم میں بہت سے تنہا انسان بس خونی رشتوں کے لیے چند سکھ خریدنے کی کوشش میں اپنی زندگیاں پردیس میں گزار دیتے ہیں ۔ان کی مادی ترقی کامیابی سب کو نظر آتی ہے لیکن وہ جس چیز سے محروم رہتے ہیں اس کا تذکرہ بہت کم کیا جاتا ہے
اکیسویں صدی کے آتے آتے دنیا  انگلی کی ایک کلک پر سمٹ کر رہ گئی ہے ۔جہاں دنیا میں ایسی حیران کن ایجادات نے معاشرے کا رنگ ڈھنگ بدلا وہیں یہ صدی بدترین نسل کشی اور اس سے بچنے کے لئے ہونے والی ہجرت کی شاہد بھی بنی ۔۔روہینگیا مسلمان انڈو آرین نسل سے تعلق رکھتے ہیں اور لمبے عرصہ سے برما یا میانمار میں آباد تھے انھیں ملک بدر کردیا گیا ۔۔۔روہینگیا مسلمانوں کی دربدری تو 1947 سے شروع ہوچکی تھی لیکن ان کے ساتھ بدترین حالات 2015 سے 2017 کے درمیان پیش آئے جب  مذہبی انتہا پسندوں نے انھیں ملک بدر کردیا اور تقریبا 9 لاکھ لوگ اپنا ملک ،گھر بار چھوڑ کر ایک انجان سفر پر نکلنے پر مجبور ہوگئے۔ خشک و تر کے راستوں سے اپنی جان بچا کر بھاگتے ہوئے ان مظلوموں سے کتنے پانیوں اور خشکیوں میں دفن ہوگئے کتنوں نے اپنوں کو بچانے کی خاطر خود موت کو قبول کیا اس پر آج انسان خاموش ہے مگر شاید مستقبل میں اس پر کبھی آواز اٹھے ۔
آج دنیا میں ظالموں کے ظلم و جبر اور وحشت کی وجہ سے انسان اپنی زمین سے بھاگ کر انجان علاقوں میں خالی ہاتھ جاتا انسان نے خود دیکھا ہے ۔شام سے بھاگنے والا ننھا معصوم جو چند سال کا تھا جب اس نے صحرا کا سینہ چیر کر ہفتوں اکیلے سفر کر کے اپنی جان بچانے کی غرض سے نئی زمین کی جانب سفر کیا اس ننھے غریب الوطن مہاجر نے مہذب دنیا کے نام نہاد علمبرداروں کے منہ پر طمانچہ رسید کیا تھا ۔ آج کی دنیا جو تہذیب و اقدار ، سائنسی ترقی ، روایات کی امین ہے اس میں ہر خطے کے ظالم زبان رنگ و نسل و مذہب کی بنیاد پر اقلیتوں کا استحصال کر کے ان کو دربدر کرنا مقدس عمل سمجھتے ہیں ۔صدیوں سے بسے افراد پل بھر میں چند عارضی قوانین کی بدولت لاوارث بنا دئیے جاتے ہیں ۔ آج امن عالم اور انسانیت کے جعلی دعوے دار اور دور جدید کے فرعونوں کی وجہ سے موسیٰ پھر ہجرت کر رہا ہے ۔ اور اسے انتظار ہے کہ کب دریا کے پانی اور خدا کی رحمت کو جوش آئے گا اور وقت کے فرعون ایک بار پھر غرقاب ہوں گے ۔
مجھے بھی لمحۂ ہجرت نے کر دیا تقسیم 
نگاہ گھر کی طرف ہے قدم سفر کی طرف 
آج سائنسی ایجادات اور ترقی نے سفر کو اس قدر آسان اور مختصر کردیا ہے کہ جس سفر کے لیے واسکوڈی گاما کولمبس اور ابن بطوطہ نے مہینوں سمندروں کی طوفانی لہروں کا سامنا کیا وہ اب گھنٹوں میں طے ہونے لگا ہے ۔۔دور جدید کا انسان چند گھنٹوں میں ایک نئے ملک ،نئے براعظم میں پہنچ جاتا ہے ۔ایسے میں وطن سے دور آنے والوں کے لئے ہجرت بظاہر بڑی آسان ہو گئی ہے۔ اساطیری کہانیوں کے ہوائی قالین پر بیٹھ کر آپ ایک نئی دنیا فتح کرنے پہنچ جاتے ہیں چمکتی دمکتی خوابوں خیالوں کی دنیا میں ۔۔وہ راستے کی صعوبتیں ،وہ سفر کی مشکلات اور منزل تک نا پہنچ پانے کا خوف جیسے مسائل اب نہیں رہے ۔۔
برصغیر کے پڑھے لکھے طبقے کی ایک بڑی تعداد امریکہ کی طرف ہونے والی ہجرت کا حصہ بنی جو  تلاش رزق اور بہتر معیار زندگی کی تلاش میں شمالی امریکہ پہنچا۔عموما یہاں آنے والے کسی اچھی فیلڈ میں جاب کے ساتھ پہنچتے ہیں اور پچھلے وقتوں کے مقابلے میں بہت سی آسانیاں ان کو میسر ہوتی ہیں۔معاش اور رہائش جیسے بنیادی مسائل تو انھیں جھیلنے نہیں پڑتے لیکن نقل مکانی تو ایک گھر سے دوسرے گھر کی بھی مشکل ہوتی ہے کجا ایک ملک سے دوسرے ملک کی اور اگر ملک ایسا ہو جہاں کی زبان اور کلچر بلکل مختلف ہو یہ مشکل اور سوا ہوتی ہے ۔کسی ایسے پیڑ کو جس کی جڑیں گہرائی تک زمین میں اتری ہوں اکھاڑ کر دوسری جگہ لگانا آسان نہیں ہوتا ۔ وہ عمومی  مسائل جو ہر مہاجر جھیلتا ہے اس سے کسی کو مفر نہی ۔ہر مہاجر کو ہجرت کا یہ عذاب تو جھیلنا ہی ہوتا ہے۔ نئی زبان اور نئے ماحول میں خود کو ڈھالنا اور اپنوں سے دوری جیسے مسائل کے علاوہ بھی کئی چھوٹے چھوٹے مسائل ہوتے ہیں
 آج سے بیس پچیس سال پہلے امریکہ یا کینیڈا آنے والے لوگ حلال گوشت اور اپنے روایتی کھانوں کے لئے میلوں کا سفر کرتے تھے ۔شروع کے کچھ سال ہر  چیز خریدتے وقت قیمت کو ڈالر سے روپیوں میں ، ٹمپریچر کو سینٹی گریڈ میں اور اوزان کو پاؤنڈ سے کلو گرام میں تبدیل کرتے گذرتے ہیں۔۔پھر بچوں کی پیدائش اور ان کے مستقبل کی فکر دامن گیر ہوتی ہے اور ان کی بڑھتی عمر کے ساتھ انھیں مغربی ماحول کے اثرات سے بچانے کی کوشش اور اپنے مذہب، تہذیب اور زبان سے جوڑے رکھنے کی جدو جہد شروع ہوجاتی ہے ۔
 ساتھ ہی ساتھ ہر بار وطن لوٹنے پر کسی کی تعزیت کرتے ہوئے افسردہ ہو کر ، پچھلی بار اس ہستی سے نہ مل پانے پر خود کو الزام دینا، ہر خوشی کی تقریب میں سب کے بیچ خود کو نہ دیکھ کر خود ترسی میں مبتلا ہونا بھی جاری رہتا ہے ۔
لیکن یہ سارے مسائل گزرتے وقت کے ساتھ ختم نہ سہی غیر اہم ضرور ہونے لگتے ہیں پہلے وطن جاتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ گھر جا رہے ہیں پھر وطن سے واپس آتے ہوئے لگنے لگتا ہے کہ اب گھر آرہے ہیں ۔دوست احباب کا حلقہ قریبی عزیزوں کی جگہ لے لیتا ہے ۔وطن کی جانے والی طویل کالز کا سلسلہ مختصر ہونے لگتا ہے یوں لگتا ہے آپ اس نئی دنیا میں مکمل طور پر سیٹ ہوگئے ہیں لیکن بقول شاعر
.کمل طور پر سیٹ ہوگئے ہیں لیکن بقول شاعر
تمام خانہ بدوشوں میں مشترک ہے یہ بات
سب اپنے اپنے گھروں کو پلٹ کے دیکھتے ہیں

 اور یہ پلٹ کر دیکھنے والی نسل کو جس بات کا شدت سے احساس ہوتا ہے وہ یے اپنی دنیا کے کھو جانے کا احساس!!!
تبدیلی کا عمل ناگزیر ہے اکثر یہ تبدیلی اتنے دبے قدموں سے آتی کہ تبدیلی سے گذرنے والوں کو محسوس بھی نہیں ہوتی سوائے ان لوگوں کے جو بہت وقفہ کے بعد ان چیزوں ،جگہوں اور لوگوں کو دیکھتے ہیں یعنی وطن سے ہجرت کرنے والے لوگ۔۔
پچھلے پندرہ  بیس سالوں میں موبائل، سوشل میڈیااور انٹرنیٹ نے دنیا کو بہت تیزی سے تبدیل کرتے ہوئے گلوبل ولیج بنا ڈالا اور ان سب کے بیچ نشوونما پاتی نئی نسل کو احساس بھی نہیں ہوتا ہوگا کہ اس بیچ کیا کچھ کھو چکا ہے۔۔۔سوائے ان لوگوں کے جن کے ذہن کی گھڑی اسی وقت پر رک گئی ہے جب وطن چھوڑا تھا۔۔اسی لئے ذہن میں وہی پرانی تصویر لئے جب تارکینِ وطن بڑے شوق سے اپنے بچوں کو اپنا وطن اور کلچر دکھانے، اپنے کھانے اور لباس دکھانے جاتے ہیں تو پتہ چلتا ہےدنیا بدل چکی ہے۔
تبدیلی تو فطرت کا اصول ہے لیکن جہاں کچھ تبدیلیاں خوشگوار لگتی ہیں وہیں بہت کچھ ایسا بھی بدل گیا ہے جس نے لوگوں کو اپنے تہذیبی ورثہ سے دور کردیا ہے کسی زمانے میں وطن لوٹتے ہوئے بچوں کے کھانے کی چھوٹی موٹی چیزوں سے لے کر ڈائپر تک ساتھ لے جایا جاتا تھا اب ہر ملک کا بڑا برانڈز ہر جگہ میسر ہے ۔فون اور انٹرنیٹ کوالٹی غیر ملکوں سے بہتر ہے اور بھی کئی ایسی سہولیات آ گئی ہیں جنھیں دیکھ کر خوشی ہوتی ہےکہ اب وطن میں بھی عام لوگوں کا معیار زندگی بہتر ہورہا ہے لیکن وہیں ہمارے کلچر کی کئی ایسی چیزیں جو زندگی کو خوبصورت بناتی تھیں ایک ایک کرکے رخصت ہو رہی ہیں چاہے وہ گھر کے بنے دیسی کھانے ہوں ، ساتھ بیٹھ کر دیکھے جانے والے ٹی وی پروگرام ہوں ، روایتی لباس ہوں یا بولی جانے والی زبان ہو۔
انٹرنیٹ فون اور ٹیکنالوجی نے جہاں ہمیں ہمارے سیل فونز کو ہمارے لئے جام جم بنا کر دنیا کی سیر کرادی ہمیں ہزاروں میل بیٹھے لوگوں کو دیکھنے اور ان سے گفتگو کے ذرائع فراہم کئے وہیں روز مرہ کی زندگی کی چھوٹی چھوٹی خوشیاں ہم سے چھین لیں۔۔ گھر کے دروازے پر ہونے والی دستک اور کسی اپنے کو اچانک دیکھنے والی جو بے ساختہ خوشی ہوتی تھی اس کا کوئی بدل نہیں ۔
گذرے وقتوں میں شادی بیاہ میں بوفے اور عجیب و غریب ناموں کے کھانوں کی لمبی قطار اور پروفیشنل فوٹوگرافر نہیں ہوا کرتے تھے لیکن بھاگتے دوڑتے بچوں کی، ہنستے بولتے، روٹھتے مناتے ہوئے عزیزوں واقارب کی  رونق ہوا کرتی تھی۔ آج کل شادیاں ،گھریلو تقریب سے زیادہ ایونٹ بن چکی ہیں جن کا مقصد میزبان اور مہمان دونوں کے لئے نمائش کرنا اور فوٹو گرافی کرنا محسوس ہوتا ہے۔۔لوگ عزیز واقارب سے ملنے اور ان لمحوں سے لطف اندوز ہونے کی جگہ انھیں اپنے موبائل میں قید کرنے کے فراق میں ہوتے ہیں ۔
 کچھ عرصہ پہلے تک ہمارے ملکوں میں تھیم پارکس نہیں تھے لیکن عید اور خاص موقعوں پر لگنے والے میلے ہوا کرتے تھے جن کا اپنا کلچر تھا اپنی رونق تھی ۔۔بہت سوں کی روزی کا وسیلہ اور اظہار فن کا ذریعہ ہوا کرتے تھے ۔
آج پرانے گھروں اور محلوں کی جگہ بلند و بالا عمارات نے لے لی ہے ۔۔ان محلوں میں پڑوسیوں کے دکھ سکھ سانجھے ہوا کرتے تھے۔ شادی بیاہ یا ماتم خوشی اور غم میں سب ہی شریک ہوا کرتے تھے بچوں کو ڈانٹ ڈپٹ اور نوجوانوں کو سرزنش محلے کے بزرگوں کا حق سمجھتی جاتی تھی۔ آج ان ٹاورز میں فلیٹوں کے دروازے اتنی سختی سے بند ہوتے ہیں کہ پڑوسی کا پڑوسی سے کوئی ناتا ہی نہی رہا۔ ان گھروں میں قدرتی ہوا اور روشنی کی جگہ ہر وقت مصنوعی روشنی اور ہوا کے لئے ائیر کنڈیشن اور بلب جلتے ہیں ۔
روایتی لباس پہننا باعث شرم سمجھا جانے لگا ہے ۔دکاندار سے بچوں کے لئے روایتی لباس دکھانے کی بات کرنے پر وہ سمجھانے لگتے ہیں کہ چیزیں اب آؤٹ ڈیٹڈ ہو چکی ہیں اور شلوار قمیض کی جگہ اب  ٹائٹس ، جینز اور گاون پہنا فیشن اور وقت کی ضرورت ہے۔
لندن امریکہ کینیڈا میں بہت سے غیر ملکی افراد انڈین پاکستانی کھانے بڑے ذوق و شوق سے کھاتے ہیں جبکہ ہمارے یہاں روایتی کھانوں اور اسٹریٹ فوڈ کی جگہ میکڈانلڈ ، کے ایف سی اور پزا شاپس  آگئی ہیں ۔
ستر کی دہائی میں جب ٹی وی نے ریڈیو کی جگہ لی تو یوں لگا کوئی جادو کا کھلونا ہاتھ آگیا ہو جو سارے گھر کو تفریح فراہم کرتا تھا ۔۔۔پروگرام اس نوعیت کے ہوا کرتے تھے جو فیملی کے ساتھ بیٹھ کر بنا نظریں چرائے دیکھے جاسکیں۔آج کل ٹی وی پر چلنے والے ڈرامہ سے لے کر اشتہار تک ہر چیز کا انداز ایسا بدلا ہے کہ اب ٹی وی قطعی فیملی تفریح نہیں لگتا اور ڈسکشن پروگرامز اور لائیو شو کے نام پر جس طرح لوگ کھلے عام اپنی ذاتی زندگی کو ٹی وی  پر اشتہار بناتے ہیں وہ دیکھ کر بس حیران ہی ہوا جا سکتا ہے  
نئی تہذیب اور کلچر کے نمونے سڑکوں اور پارکوں میں اس طرح نظر آتے ہیں کہ آپ کنفیوز ہو جاتے ہیں کہ یہ کون سی جگہ ہے۔۔۔کیا  چند سالوں میں دنیا اتنی بدل جاتی ہے ؟ 
چیزوں کی قیمتیں آسمان پر پہنچی ہیں۔لوگ  تنگی کا رونا روتے ہیں پھر بھی بے تحاشا خرچ کئے جا رہے ہیں۔ اب چیزیں ضروت کے حساب سے نہیں تفریح اور دکھاوے کے لئے خریدی جاتی ہیں۔ برانڈیڈ چیزوں کا کریز اس حد تک ہے کہ لوگ تحفوں کو بھی اس کی برانڈ کے حساب سے جانچتے ہیں ۔
یہ سب دیکھ کے لگتا ہے  Rudyard Kipling  کی لکھی گئی “ایسٹ از ایسٹ” غلط ثابت ہوگئی ہے۔
۔۔۔آج مغرب کا اثر ہماری تہذیب روایات کلچر  اور زبان کو آہستہ آہستہ مٹاتا جاریا ہے ۔۔سوال ٹیکنالوجی کے استعمال اور نئی چیزوں کو زندگی کا حصہ بنانے کا نہیں ہے بلکہ یہ ہے کہ مغرب کی کن چیزوں کو اپناتے ہیں ۔۔کیا ترقی کا مطلب اپنی تہذیب اور کلچر کو ختم کرنا ہے ؟ کیا اپنی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے ہم اس نئے دور کا حصہ نہیں بن سکتے ؟
تبدیلی  تو انسانی ارتقا کی تاریخ کا حصہ ہے لیکن تبدیلی ایسی ہو جو ماحول سے مطابقت رکھے جس سے معاشرے میں کچھ سدھار آئے اور تبدیلی کی رفتار ایسی نہ ہو کہ جب گھر سے نکلنے والے چند سال بعد اپنے گھر لوٹیں تو درودیوار اجنبی اور لوگ انجان محسوس ہوں۔۔وطن گھر اور مٹی کی محبت میں واپس آنے والے جب ہفتوں مہینوں اور سالوں کے بعد اپنے تھکے ہارے وجود کے ساتھ اپنوں میں واپس لوٹیں تو ان کو ایسا نا محسوس ہو کہ یہ جگہ  علاؤہ ماحول اور روایات وہ نہیں ہیں جن کو چھوڑ کر گئے تھے ۔ وہ اجنبی دیس سے پھر کسی اور اجنبی دھرتی پر نہ پہنچ جائیں ۔ ہر مسافر اپنی ہجرت کا اختتام چاہتا ہے لیکن گھروں کو لوٹنے والے جب اپنی زندگیاں ، جوانیاں اور توانیاں اپنوں کی فلاح و بہبود اور سکون کی خاطر لٹا کر واپس لوٹیں تو ان کو ایسا نا لگے کہ وہ انجان زمین اور بیگانے رشتوں میں ا گئے ہیں ۔ وقت کی تیز رفتار اپنی جگہ ، ترقی ع خوشخالی کا پہیہ اپنی جگہ ، لیکن اقدار کو بھلا دینا ، روایات کو روند دینا ، کسی دوسرے معاشرے کے چند منفی پہلوؤں کی بھونڈی نقل بن جانا ترقی نہیں ہے ۔ مالی طور پر مضبوطی اور معاشی طور پر سکون ہر انسان کا پیدائشی اور فطری حق ہے لیکن ان کے ساتھ ساتھ اپنے اجداد ، اپنے مذہب اور مٹی کے کچھ اصول و ضوابط اور خوبصورتیاں بھی ہیں جن کو انسان نے صدیوں کے نچوڑ سے حاصل کیا ہوگا ہے ۔ ان کو بدل دینا اور پرائی ثقافت اور انجان ماحول کو باعث عزت سمجھنا حماقت ہوتی ہے ۔
دنیا سے کامیابی کے ساتھ اپنی اقدار کی حفاظت کا سبق بھی لینا چاہیے تاکہ آنے والی نسلیں اپنے ملکوں ، شہروں اور گھروں میں ہی کہیں کھو نا جائیں ۔