کامیڈی لیجنڈ

کامیڈی لیجنڈ
معین اختر

مرزا صہیب اکرام

گھر سے مسجد ہے بہت دور
چلو کسی روتے ہوئے بچے کو ہنسایا جائے

زندگی کی دوڑ میں لگے ہوئے ہر انسان کے پاس ہمیشہ حالات نامساعد ہوتے ہیں اس کے پاس مسائل کا انبار رہتا ہے وہ مصیبتوں مشکلات پریشانیوں سے گھرا ریس میں لگا رہتا ہے ،شعور کے آغاز سے روٹی کپڑا اور مکان کو حاصل کرنے کی امید ، خوشیوں اور خواہشات سے بھرپور زندگی جینے کی امید ، سہولیات اور بہتر مستقبل کی آس ، بچوں کی تعلیم ، والدین کے لیے آسودگیاں حاصل کرنے کی تمنا ، زندگی کے ہر لمحہ میں ایک انسان لاتعداد مسائل کے ڈھیر میں دبا رہتا ہے اور وہ زندگی کے خوشگوار ترین لمحات میں بھی ذہنی طور پر کسی نہ کسی حساب کتاب کو ذہن سے جھٹلا نہیں پاتا ۔ یہی زندگی کی حقیقت ہے کہ وہ خوابوں کو دیکھنے اور انہیں پورا کرنے کی کوشش میں صرف ہو جاتی ہے ۔ ایسے لاکھوں کروڑوں انسان جو دو وقت کی روٹی کے حصول کے لیے ، بچوں کے بہتر مستقبل کے لیے ، با عزت زندگی کی خواہش میں بھاگتے رہتے ہیں ان سے بہتر ایک مسکراہٹ کی قیمت کوئی نہیں جانتا ۔ ایسے کروڑوں انسان جب کسی فلم ڈرامہ تھیٹر کتاب سمیت فنون لطیفہ کی کسی صنف میں مذاق مکالمے ، جگت، سچویشن پر اچانک کھلکھلا کر ہنس پڑتے ہیں تو اس ایک لمحے اور چند ساعتوں کے لیے وہ زندگی اور حالات کی عائد کردہ تمام پابندیوں سے آزاد ہو جاتے ہیں۔ اگر پرفارم کرنے والا فنکار ادکار صدا کار کلارکار بڑا فنکار ہو تو وہ اس انسان کو چند لمحوں منٹوں اور گھنٹوں کے لیے اس کی حقیقت سے مزین اور مشکل ترین زندگی سے اٹھا کر اپنی قائم کردہ خیالی دنیا میں لےجا سکتا ہے جہاں پہنچ کر ایک عام انسان اپنے دکھ بھول جاتا ہے ۔وہ اپنے سامنے نظر آنے والے منظر کے حسن و جمال اور تازگی میں کھو جاتا ہے ۔
معین اختر ایسے ہی ایک فنکار تھے جنہوں نے اپنے فن سے لاکھوں چہروں کو ہنسی سے سجایا ، اداس دلوں کو روشن کیا ، قہقہے کو نئی شکل دی ۔ طنز مزاح اور مذاق کو نئے معنی سے آشکار کیا ۔
معین اختر کا ایک جملہ ہے کہ ” وہ طنز نہیں کرتے بلکہ مذاق کرتے ہیں ۔طنز ہرن کے شکار جیسا ہوتا ہے اور مذاق ہرن کے ساتھ ساتھ دوڑنے جیسا۔”
وہ کسی ایک چہرے پر مسکراہٹ سجانے کی خاطر کسی دوسرے چہرے پر تلخی نہیں لاتے یہی چیز انہیں ممتاز کرتی ہے ۔

ہنسانے کے سادہ معنی تو یہی ہیں کہ کسی چہرے پر رونق برپا کر دی جائے کسی کی آنکھوں میں چمک پیدا کر دی جائے یا کسی کو ہونٹوں پر تبسم بکھیرا جائے ۔لیکن کامیڈی اپنے اندر بہت وسیع دنیا رکھتی ہے ۔یہاں پر فنکار سیاہی مائل راتوں اور تاریک راہوں میں چلتے چلتے خوشیوں کے چھوٹے چھوٹے دیے روشن کرتا چلا جاتا ہے۔ خوشگوار اور صاف ستھری کامیڈی سورج کی پہلی کرن کی طرح پوتر اور کلی کی پہلی بساندھ کی طرح مسحور کن ہوتی ہے ، یہ سرد راتوں میں لحاف کی گرمی اور حبس کے دنوں میں اچانک چلنے والی ٹھنڈی ہوا سی ہوتی ہے۔
معین اختر ایسے ہی ایک فنکار تھے جو کامیڈی کی دنیا کے ایسے بے تاج بادشاہ تھے جن کی گرد کو کم ہی فنکاروں نے چھوا ہو۔کامیڈی کے اندر ایسی کوئی جہت نہیں ہے جہاں معین اختر نے کام نہ کیا ہو اور اپنے فن کا لوہا نہ منوایا ہو۔کہا جاتا ہے کہ زندگی کی تلخیوں سے لڑتے کسی انسان کے چہرے پر مسکراہٹ لانے کا فن بڑا عظیم ہوتا ہے اور کچھ لوگ ہی ایسے خوش قسمت ہوتے ہیں جو اس فن میں اس حد تک کامیاب ہوتے ہیں کہ ان کے نام اور ذکر پر ہی انسان مسکرا پڑتا ہے ۔۔معین اختر کا نام آتے ہی جو تصوراتی دنیا انسان کے سامنے آتی ہے اس میں انسان معین اختر کو کبھی کامیڈین کبھی اداکار کبھی شو ہوسٹ کبھی ممیکری آرٹسٹ کبھی رائٹر اور کبھی ڈائریکٹر بنے دیکھتا ہے ۔
ایک انسان کے اندر اتنی جہتوں کو اتنی کاملیت سے دیکھ کر کوئی بھی ششدر رہ جاتا ہے۔ہر انسان اور فنکار کے بارے میں ایک جملہ اکثر ادا کیا جاتا ہے کہ وہ بنیادی طور پر فلاں تھے لیکن معین اختر جس جس جہت میں کام کرتے نظر آتے ہیں لگتا ہے وہی ان کی سب سے خاص اور اہم صنف ہے۔
معین اختر نے اپنے فن سے لاکھوں کروڑوں دلوں میں جگہ پائی۔اپنے پورے کیرئیر میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اپنے دن کو نکھارا اور اپنی عزت و منزلت میں مسلسل اضافہ کیا لیکن پھر بھی اس فنکار دشمن معاشرے نے انہیں وہ مقام نہیں دیا گیا جو ان کو مہذب دنیا کے کسی ملک کا فنکار ہونے سے حاصل ہوتا۔
کامیڈی فکشن کی وہ قسم ہے جس کا مقصد لوگوں کو تفریح فراہم کرنا اور ان کے لبوں پر مسکراہٹ لانا ہوتا ہے ۔
ارسطو کے مطابق کامیڈی کا اہم پہلو یہ ہے کہ انسان سماجی جانور ہے کامیڈی آرٹسٹ کا مقصد اسی سماج کو ہنستے ہنستے آئینہ دکھانا ہوتا ہے ۔ ارسطو نے کامیڈی کی تین اہم اقسام بتائی ، مسخرہ پن، رومانی کامیڈی اور طنز۔

اسٹیج، ڈرامہ یا فلمی میں کامیڈی کی شروعات یونان میں ہوئی جہاں کامیڈی کا مطلب ایسا ڈرامہ تھا جس کا اینڈ خوشگوار ہو ۔گذرتے وقت کے ساتھ کامیڈی کے معنی وسیع ہوتے گئے ۔یہ اکثر ایسے لوگوں کو اظہار کے ذریعہ بنتی گئی جو سماج کے مروجہ معیار سے نیچے ہوتے ہیں اور ان کمیوں کو تضاد کے ذریعے پیش کرکےان پر ہنسنا ہی کامیڈی سمجھا جانے لگا ۔کامیڈی جب عربی زبان پہنچی تو ہجا کہلائی جانے لگی۔ شیکسپیئر کے دور تک کامیڈی کوئی خاص شکل نہیں اختیار کرسکی ۔انیسویں صدی کی ابتداء میں انگلینڈ میں کامیڈین یا کلاون کے اسٹیج شو شروع ہوئی ۔انیسوی صدی کے آخر میں فریڈ کارنو نے کامیڈی کی ایک نئی قسم کی ابتدا کی جس میں بنا کچھ کہے صرف اپنی حرکات اور چہرے کے تاثر سے ہنسایا جاتا ۔۔اس کے گروپ میں شامل ہونے والوں میں چارلی چیپلن اور اسٹین لاریل ( مشہور لاریل ہارڈی سیریز ) جیسے کئی بڑے آرٹسٹ تھے۔ بیسویں صدی کی شروعات میں سینما کی مقبولیت نے چارلی چپلن کو ساری دنیا میں مشہور کردیا۔ چارلی چپلن کی اس روایت کو روون ایکنسن ( مسٹر بینز ) نے صدی کے آخر تک قائم رکھا ۔ امریکی سنیما نے بھی لاریل اینڈ ہارڈی اور تھری اسٹوجیز جیسے شوز کے ذریعہ کامیڈی کی صنف کو آگے بڑھایا ۔صدی کے نصف تک باب ہوپ، ڈین مارٹن جیری لوئس اس سفر میں شامل ہوئے ۔گذرتے وقت کے ساتھ رابن ولیمز، بل کوسبی، ایڈی مرفی ، جم کیری ، پیٹر سیلرز جیسے نام بھی کامیڈی کی تاریخ میں اپنا نام درج کراتے رہے ۔

انڈین کلچر میں کامیڈی یا ہاسیہ رس زندگی کے نو رسوں میں سے ایک مانا جاتا یے۔ عہد وسطی میں ہندوستانی تہذیب میں بہروپیا اور بھانڈ ہوا کرتے تھے جو چھوٹے چھوٹے خاکہ پیش کرتے تھے جس میں چٹکلوں،جملے بازی اور فقرے کس کے لوگوں کو ہنسایا جاتا۔یہ بہروپیا یا بھانڈ درباروں میں ، تہواروں، شادی بیاہ مختلف مواقعوں پر بلائے جاتے تھے ۔یہ انگلش یا امریکی slapstick کامیڈی کا انڈین رنگ کہے جاسکتے ہیں ۔

اسیٹینڈ اپ کامیڈی
انسویں کے وسط۔میں یورپ میں کامیڈی کی ایک نئی قسم کی ابتدا ہوئی جسے اسٹینڈ اپ کامیڈی کہا جاتا ہے۔ اس میں کامیڈین آڈینس کے سامنے لائیو کامیڈی کرتا ان سے باتیں کرتا اپنے جملوں سے باتوں سے چٹکلوں سے لوگوں کو ہنساتا ہے ۔اس کی باقاعدہ ابتدا مارک ٹوئن نے 1866 میں کی اس دور میں نسلی جوکس ، فحش مذاق اور مسخرہ پن سے لوگوں کا ہنسایا جاتا ۔یہ فن امریکہ اور انگلینڈ میں ترقی کرتا ہے ۔تھئیٹر ، کارنیوال پارٹیوں کی جگہ ان کامیڈین کے لئے کامیڈی کلب بننے لگے ۔بیسویں صدی کی ابتدا تک اس سےباب ہوپ، جارج برنز٫ فریڈ ایلن کئی بڑے نام جڑ گئے ۔اب اسٹینڈ کامیڈی میں سیاسی اور سماجی مسائل پر طنز مزاح ہونے لگا۔ 50 سے 70 کی دہائی میں ووڈی ایلن ، جے لینو ، جارج کربی ، بل کوسبی جیسے ناموں کے ساتھ اسٹینڈ اپ کامیڈین تھیٹر ، اسپورٹس ایونٹس اور ٹی وی شوز کا حصہ بننے لگے ۔
برصغیر میں اسٹینڈ کامیڈی اکیسویں صدی میں آکر اپنے عروج ہر پہنچی ہے لیکن 1966 میں پاکستان میں ایک نئے نام نے اس فیلڈ میں خود کو درج کروایا ۔وہ نام تھا معین اختر۔۔

معین اختر کی پیدائش 24 دسمبر 1950 کو مراد آباد اتر پردیش میں ہوئی ان کا خاندان 1960 میں پاکستان ہجرت کرگیا ۔۔معین اختر کو اسکول کے زمانے سے ممیکری کرنے کا شوق تھا وہ اسکول میں امریکی اداکار اینتھونی کوئن اور جان کینڈی کی نقل کیا کرتے تھے انھوں نے 13 سال کی عمر میں ایک انگریزی ڈرامہ میں بطور چائلڈ آرٹسٹ کام کیا ۔انھیں ٹی وی پر اپنے فن کے مظاہرے کا پہلا موقع 6 ستمبر 1966 میں ڈیفینس ڈے کے ویرائٹی پروگرام میں ملا لیکن بطور کامیڈین ان کا کیریئر اصل میں 1967 میں شروع ہوا جب ضیا محی الدین شو میں پرفارم کرنے کا موقع ملا جو اس وقت کے مشہور آرٹسٹ خالد عباس ڈار نے دلوایا تھا ۔۔
برصغیر میں پچھلے دس پندرہ سال پہلے تک اسٹینڈ اپ کامیڈین کو ایک مکمل آرٹسٹ تسلیم نہیں کیا گیا نہ ان کے اپنے شوز ہوتے تھے وہ کسی ویرائٹی پروگرام میں دیگر سنگر اور آرٹسٹوں کے بیچ کچھ دیر لوگوں کو ہنسانے کا فرض انجام دیتے تھے۔اتنے محدود مواقعوں کے باوجودِ معین اختر نے اپنی پہچان بنائی مختلف لائیو شوز اور ٹی وی شوز میں وہ پرفارم کرنے لگے ۔ایک اسٹینڈ کامیڈین کے لئے اہم چیز حاضر جوابی اور شائقین کے ساتھ جڑنا ہوتا ہے ۔معین اختر اپنی ذہانت اور عمدہ ٹائمنگ کی وجہ سے اس فیلڈ میں مشہور ہوئے بلکہ بر صغیر کے پہلے باقاعدہ اسٹینڈ اپ کامیڈین ہیں ۔
1967 کے بعد معین اختر پی ٹی شوز کے صف اول کے میزبانوں میں شمار ہونے لگے۔ خاص کر ان شوز میں جہاں کوئی اہم سیاسی شخصیات ہوتیں۔ ۔معین اختر نے اردن کے شاہ حسین، گیمبیا کے وزیراعظم داود الجوزی کے علاوہ پاکستان کے صدر جنرل یحیٰ خان، وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو، صدر جنرل ضیا الحق، صدر غلام اسحاق خان، وزیر اعظم بے نظیر بھٹو، وزیر اعظم نوازشریف، صدر جنرل پرویز مشرف، وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے اعزاز میں کرائی گئی تقاریب میں میزبانی کے فرائض سرانجام دیے۔۔ اس کی اہم وجہ ان کا اردو اور انگریزی زبان پر عبور ، حالت حاضرہ سے واقفیت اور کامیڈی میں اعلی معیار اور شائستگی کو قائم رکھنا تھا۔

انھوں نے پی ٹی وی کے علاؤہ دبئی میں ہونے والے کئی شوز کی میزبانی بھی کی۔ جن میں بولی ووڈ کے بڑے بڑے اسٹارز شامل ہوتے۔ایسے ہی ایک شو میں دلیپ کمار کا تعارف کرواتے ہوئے معین اختر نے دلیپ کمار کے ڈائلاگ اس عمدگی سےادا کئے کہ سامعین کے ساتھ دلیپ کمار بھی حیران رہ گئے ۔اس کے بعد یہ تعلق اور دوستی برسوں قائم رہی۔ دلیپ کمار کی پاکستان کے دورے کے دوران بھی ان کے لئے منعقد کردہ شوز کی میزبانی معین اختر نے ہی کی۔
ستر اور اسی کی دہائی آڈیو کیسٹ اور VHS کی دہائی تھی۔۔مہنگے گراموفون اور ایل پی ریکارڈ کے بعد آنے والے مناسب قیمت کے آڈیو کیسٹ اور ٹیپ ریکارڈر گھر گھر میں نظر آنے لگے تھے ۔ان کیسٹوں میں گانے غزلوں اور قوالیوں کے علاؤہ ایک اور چیز برصغیر میں سنی جانے لگی وہ تھی معین اختر کی ممیکری اور نقالی ۔
آواز کا اتار چڑھاؤ ، مختلف اقسام کے لہجوں پر عبور اور گہرا مشاہدہ اور ممیکری کے لئے چنے گئے موزوں کرداروں نے معین اختر کو ایک انتہائی کامیاب ممیکری آرٹسٹ بنادیا تھا اور وہ برصغیر اور مڈل ایسٹ میں ایک جانا پہچانا نام بن گئے ۔ معین اختر ہمیشہ فحش گوئی، بھونڈے مذاق اور پھکڑ پن سے دور رہے ۔وہ اپنی ذہانت ، بذلہ سنجی اور عمدہ اندازِ بیان سے ہنساتے تھے ۔۔
معین اختر بہت با صلاحیت انسان تھے انھیں کئی زبانوں پر عبور تھا اردو ، انگریزی ، گجراتی ، سندھی ، پنجابی ، پشتو، بنگالی وغیرہ روانی سے بولتے تھے۔انھوں نے مسلسل اپنے فن میں کچھ نیا لانے اور کچھ نیا کر دکھانے کی کوشش کی۔ نقالی اور میزبانی کے علاؤہ انھوں نے ادکاری کی فیلڈ میں بھی قدم جمائے اور بیس سے زائد ٹی وی ڈراموں میں کام کیا جن میں آنگن ٹیڑھا ، انتظار فرمائیے اور سچ مچ جیسے کلاسک اور مشہورِ ڈرامہ شامل ہیں۔ ان ڈراموں میں معین اختر نے انواع و اقسام کے کردار نبھا کر اپنی اداکاری کا لوہا منوایا لیکن جس ڈرامہ نے انھیں شہرت کی بلندیوں تک پہنچایا وہ ان کا مشہور زمانہ ڈرامہ روزی تھا۔

روزی ۔
طاہرہ واسطی کا پروڈیوس کیا یہ ڈرامہ ڈسٹن ہاف مین کی فلم ٹوٹسی پر بنا تھا۔
یہ ایک ناکام ایکٹر ہارون کی کہانی ہے جو کام نہ ملنے پر روزی نامی لڑکی کا بہروپ بھرتا ہے۔ایک ایسا مشکل رول کرنا جو ڈسٹن ہاف مین کرچکا ہو اور ہر خاص و عام سے داد وصول کرنا یہ کام معین اختر ہی کرسکتے تھے۔اس کے بعد انڈ و پاک میں اس سے ملتے جلتے کردار آج تک ادا ہو رہے ہیں۔

آنگن ٹیڑھا
انور مقصود کا لکھا کلاسک ڈرامہ جس کے مرکزی کردار شکیل ، بشری انصاری اور سلیم ناصر جیسے منجھے ہوئے کردار تھے ان کے بہ نسبت معین اختر کا کردار مختصر لیکن بہت ویرائٹی لئے ہوئے تھا ۔

سچ مچ
معین اختر کا یہ مزاحیہ سیریل بے حد مقبول ہوا تھا اس کے مزید دو سیزن آئے ۔منظور دانا والا نامی میمن بزنس مین کا کردار معین اختر نے بہت حقیت پسندی سے نبھایا ان کا گیٹ اپ لہجہ اور باڈی لینگوئج ہر چیز یوں تھی جیسے وہ کردار کوحقیقت میں جی رہے ہوں۔

معین اختر کے اسٹیج ڈرامہ
کسی بھی اسٹینڈ اپ کامیڈین کے لئے لائیو آڈینس کےسامنے پرفارم کرنا اہم ہوتا ہے معین اختر نے اس کام کو مزید نکھارتے ہوئے اسٹیج ڈرامہ بھی کئیے ۔عمر شریف کے ساتھ کئے گئے مزاحیہ ڈرامہ یادگار سمجھے جاتے ہیں۔ حالانکہ ان ڈراموں کا معیار کسی حد تک عوامی تھا لیکن معین اختر کا یہ کمال تھا ایک طرف وہ مرزا غالب کے اشعار کی تشریح اور ان کی زبان دانی پر جملے کس کر ادبی ذوق والے ناظرین کو لطف اندوز کرتے اور دوسری طرف وہ بنگالی نوکر کے کردار میں فرنٹ بینچ کی عوام کو قہقہ بار کر لیتے تھے ۔۔

معین اختر نے پینتالیس سال تک ٹی وی اور اسٹیج پر اپنے جوہر دکھائے ۔ان کے ہم عصروں میں خالد عباس ڈار ، ماجد جہانگیر ، اسماعیل تارا ، لطیف کپاڈیا ، منور ظریف ، لہری ، جمشید انصاری ،زیبا شہناز ، عرش منیر کے علاوہ اطہر شاہ خان ، قاضی واجد اور عمر شریف جیسے بڑے نام شامل ہیں۔ انور مقصود ، بشری انصاری کے ساتھ مل کر معین اختر نے کئی کامیاب پروگرام کئے لیکن جو چیز معین اختر کو ان کے معاصرین سے ممتاز کرتی ہے وہ ان کی ہر فن مولا شخصیت اور وقت اور ماحول کے مناسبت سے مزاح پیدا کرنے کی صلاحیت یے ۔۔وہ جتنی آسانی سے ٹی وی ڈراموں میں اداکاری کرلیتے تھے اتنی ہی شاندار اداکاری اسٹیج پر بھی کرلیتے تھے ۔لائیو شوز کی ہوسٹنگ ہو یا ٹی وی کے یس سر نو سر جیسے شوز وہ بآسانی ناظرین کو اپنی باتوں میں جکڑ لیتے اور شو کے مہمانوں کو اپنے برجستہ سوالات سے لاجواب کردیتے ۔لوز ٹاک ، اسٹوڈیو ڈھائی اور ففٹی ففٹی جیسے پروگراموں میں مختلف کردار لباس لہجہ سے کمال ڈھاتے ۔۔لیکن ان سب میں تہذیب کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے اس لئے ان کے پروگراموں کو گھروں میں فیملی کے ساتھ دیکھ کر محظوظ ہوا جاتا ہے ۔

معین اختر ہر فن مولا فنکار تھے۔وہ کامیڈی کی ہر صنف میں نظر آتے رہے اور جہاں جہاں ان کو موقع ملا انہوں نے دیکھنے والوں کے دل و دماغ کو معطر کیا ۔لیکن ان کا ایک کام ایسا ہے جو صدیوں تک یاد رکھا جا سکتا ہے اور ان کے اس ایک کام کی وجہ سے ان کو برصغیر کا سب سے بڑا مزاحیہ فنکار قرار دیا جا سکتا ہے ۔ انور مقصود کے قلم کا شہکار لوز ٹاک کبھی بھی امر نہ ہوتا اگر اس میں انور مقصود کو معین اختر کا ساتھ نہ ملتا۔ایک میز دو کرسیاں اور پانچ سو سے زائد اقساط پر پروگرام کرنا اور ہر پروگرام میں معین اختر کا معاشرے کے حقیقی کرداروں میں سے کسی ایک کردار کو چننا اور اس کردار کو اپنی ذات میں ایسے مدغم کر لینا کہ دیکھنے والا ان کو دیکھتے دیکھتے معین اختر کو بھول کر کردار میں کھو جائے ۔
ایک ڈاکٹر ،شاعر، ادیب ، صحافی ،کالم نگار، فنکار ، کرکٹر، بنگالی، پنجابی ، سندھی وڈیرا، نواب امیر غریب پروفیسر چپڑاسی ، وزیر ، الغرض ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے انسانوں کو کرداروں کی شکل میں ڈھال دینا اور اس کو پردہ پر من و عن پیش کرنا معین اختر کا خاصا رہا ہے ۔
ویسے تو لوز ٹاک کا ہر کردار جو انہوں نے نبھایا وہ یادگار شاندار اور لاجواب رہا۔لیکن سشما سوراج کا گیٹ اپ کرنا ، سرکس کے ایک جوکر کا رول ادا کرنا ، زلزلہ سے متاثرہ علاقہ کے استاد کو کردار نبھانا ، غالب پر پی ایچ ڈی کرنے والے سنکی اسکالر بننا ، اسی طرح ایک میمن بزنس مین ، ایک بنگالی تاجر ، کا روپ وہ ایسے دھارتے ہیں کہ دیکھنے والے ان کے فن کے دلدادہ ہو جاتے ہیں۔
معین اختر ان تمام کرداروں میں معاشرے سماج اور انسانوں کے رویوں پر چوٹ کرتے ہیں وہ کسی ایک انسان ادارے یا فرد پر طنز نہیں کرتے نہ کسی کو نشانہ بناتے ہیں بلکہ وہ ان تمام کرداروں کا روپ دھار کر مسائل پر چوٹ کرتے ہیں۔وہ ان کرداروں کی زبان سے کوئی مزاح اور کبھی کبھی سنجیدہ انداز میں معاشرے کی بے حسی پر بات کرتے ہیں۔
وہ بیک وقت ایک مزاحیہ فنکار بھی لگتے ہیں اور ایک سنجیدہ اداکار بھی ۔وہ اپنے مکالمے ، باڈی لینگوئج ، چہرے کے اتار چڑھاؤ سے خود کو ایک مکمل فنکار ظاہر کرتے ہیں۔لوز ٹاک میں کئی سو الگ الگ شخصیات کا روپ مکمل جزئیات کے ساتھ دھار کر معین اختر خود کو ورسٹائل اداکار ثابت کرتے ہیں۔
معین اختر نے بیک وقت کامیڈی کی ہر صنف میں کام کیا اور ہر صنف میں خود کو مکمل فنکار ثابت کیا ۔معین اختر ہر کردار کا لب و لہجہ اس عمدگی سے اختیار کرتے تھے کہ اس کردار سے ہٹ کر کسی دوسرے معین اختر کا تصور کرنا مشکل ہو جاتا ہے ۔
معین اختر اسٹینڈ اپ کامیڈی میں انڈ و پاک میں اولین فنکاروں میں سے ہیں۔اسی کے ساتھ ساتھ ممیکری میں وہ برصغیر کے پہلے ادکار تو نہیں تھے لیکن ان کے بعد ممیکری کو نئی پہچان ملی اسی وجہ سے ان کے بعد کا ہر ممیکری آرٹسٹ انہی سے متاثر ہے۔ڈرامہ میں کامیڈی بالکل ایک جدا اور منفرد چیز ہے اس میں فنکار کو صرف ڈائیلاگ نہیں بولنے پڑتے بلکہ وہ باڈی لینگوئج چہرے کے تاثرات آواز کے اتار چڑھاؤ کے بنا اس جہت میں کامیاب نہیں ہو سکتا اسی وجہ سے تھیٹر کے جگت باز ایکٹرز ٹی وی ڈرامہ میں کبھی کامیاب نہیں ہوتے اسی طرح ڈرامہ کے فنکار لائیو تھیٹر میں فٹ نہیں بیٹھتے لیکن معین اختر دونوں جہتوں میں مکمل اداکار تھے۔

معین اختر جیسے فنکار صدیوں یاد رکھے جانے کے قابل ہیں۔معین اختر کا نام فن مزاح کے حوالے سے ہمیشہ زندہ رہے گا۔
لیکن حسب روایت ہمارے معاشرے میں انھیں وہ مقام نہیں جو ان جیسی صلاحیتوں کے مالک شخص کو ملنا چاہیے تھا اور آج ان کے دنیا سے گذر جانے کے بعد برصغیر کے بڑے کامیڈین کپل شرما ،جونی لیور ہر کوئی انہیں استاد مانتا ہے۔۔معین اختر کے جانے کے بعد کامیڈی کی دنیا میں جو خلا پیدا ہوا ہے اس کی بھرپائی شاید ہی ہو لیکن ان کے ڈراموں خاص طور پر لوز ٹاک پر یقیناً کام ہونا چاہیے تاکہ معین اختر کے فن کو شائقین کے سامنے اجاگر کیا جا سکے ۔