ہندوستان کی پہلی مسلم حکمران خاتون ۔رضیہ سلطان

ہندوستان کی پہلی مسلم حکمران خاتون ۔رضیہ سلطان

تبسم حجازی

زمانہ قدیم سے آج تک عورت کے معاشرے میں مقام پر بحث مباحثے ہوتے رہے ہیں ۔اکثر مذاہبِ میں اگرچہ عورت کو اونچا مقام دیا گیا ہے لیکن حقیقی زندگی اور معاشرے میں عورت کو ہمیشہ کمتر اور محدود صلاحیت کا مالک مانا جاتا رہا ہے ۔۔امریکہ جیسے ملک میں پچھلی صدی کے وسط تک خواتین حق رائے دہی سے محروم تھیں لیکن تاریخ گواہ ہے کہ ان حالات میں بھی کچھ خواتین ایسی گذری ہیں جنہوں نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔ کار زارِ سیاست سے لے کر سائنس تک اور ادب سے لے کر خلا تک اپنی ذہانت اور جدوجہد سے کامیابی کے جھنڈے گاڑھے۔ان ہی خواتین کو دنیا بھر کی خواتین میں خاص قدر و منزلت حاصل ہے۔گوشہ النسا میں ہم آپ کو کچھ ایسی ہی تاریخی اور کچھ موجودہ دور کی خواتین سے متعارف کروائیں گے ۔

عورت کیا ہے۔۔اس پر بے شمار آرا فلسفے اور کہانیاں ہیں۔۔۔یہ خدا کی ایک تخلیق ہے ، کائنات کا حسن ہے۔ زمانے کی تکمیل ہے یا زمین پر خدا کے وجود کا سب سے خوبصورت ثبوت یا مرد کی ایک ضرورت ہے ۔۔مختلف مذاہب اور عقائد کی رو سے عورت کا وجود مرد کے وجود کا ایک حصہ ہے ۔ادب کی زبان میں کہا جائے تو عورت مرد کے وجود سے جدا ہونے والا لافانی حسن ہے جس کے بنا اور جس کے انکار سے دنیا کا ہر مرد ادھورا ہے ۔ عورت نہ صرف دنیا میں مرد کو لانے کا ذریعہ ہے بلکہ انسان کی پہلی تربیت گاہ بھی ہے ۔ بچے کی نگہداشت سے لے کر اسے معاشرے کا فعال شخص بنانے تک ہر قدم پر عورت کا وجود ماں بہن بیوی کی شکل میں اس کا معاون ہوتا ہے ۔

کائنات کے پہلے انسان سے آج تک عورت کا وجود قائم ہے لیکن مذاہب کے بعد انسان جب عائلی اور معاشرتی پھندوں میں الجھا تو عورت کے لیے نت نئے قوانین ، اصول اور ضابطے مرتب ہونے لگے ۔ وقت کی چکی اس قدر سخت کر دی گئی کہ عورت کے سوچ کی اڑان کو خود اس کے ذہن سے محو کر دیا گیا ۔عورت کے لیے عقل و شعور , تعلیم اور سوچنے کے تمام در اس طرح بند کیے گئے کہ وہ خود بھی اپنے آپ کو افزائش نسل کا ایک ذریعہ اور گلدان میں سجا پھول سمجھنے لگی لیکن اٌس دور میں بھی جب عورت کو مرد کی چتا پر زندہ جلا دیا جاتا تھا جب عورت کاری کر دی جاتی تھی جب عورت مرد کی ضرورت پوری کرنے کا نام تھا تب بھی خواتین کے ایک طبقے نے اپنی جدوجہد جاری رکھی اور معاشرے میں اپنی بقا کی کوشش جاری رکھی۔
جب بھی موقع ملا خود کو مرد کے برابر بلکہ اس سے بھی زیادہ اہل ثابت کیا اور دنیا کو یہ پیغام دیا کہ عورت بھی خدا کی افضل تخلیق اور اشرف المخلوقات میں شامل ہے۔اسے بھی زمانے میں وہ تمام حقوق حاصل ہیں جن پر مرد صدیوں سے اکیلا قابض ہے ۔عورت کے پہچان کی یہ لڑائی کسی مرد کے یا مخصوص قوم کے خلاف نہیں بلکہ صدیوں سے قائم اس استحصالی سوچ کی خلاف ہے جس کا شکار آج نہ صرف مرد ہیں بلکہ بہت ساری خواتین بھی اس گھٹن کو جائز و احسن سمجھتی ہیں۔
دورِ حاضر سے تاریک ترین ماضی تک تاریخ کو کنگالا جائے تو ایسے ہزاروں افراد انسان مل جاتے ہیں جہنوں نے مختلف شعبہ ہائے زندگی میں انسانیت کی بقا کے لیے کام کیا۔غار سے لے کے محلات تک انسان کی زندگی جدوجہد سے عبارت رہی ہے۔ہر دور کے انسان نے اپنے ماضی سے سبق سیکھا اور نئی نسلوں کے لیے سہانے مستقبل کے کچھ خواب دیکھے ۔ازل سے ایک جدوجہد تو بطور مجموعی انسان کر رہا ہے لیکن ایک اور جدوجہد بھی ہے جو انسان کے اندر چل رہی ہے ۔ غار کے انسان سے ٹیکنالوجی کی تیز ترین دنیا تک مرد اور عورت ایک دوسرے کے حوالے سے کچھ تحفظات کا شکار رہے ہیں ۔
کسی ملک پر حکمرانی اور تخت و تاج سنبھالنے کے لئے عورت کبھی پہلا انتخاب نہیں رہی لیکن حالات اور وجوہات جو بھی ہوں تاریخ میں کئی ایسی خاتون حکمرانوں کا ذکر ملتا ہے جنہوں نے موقع ملنے پر نہ صرف حکومت کی باگ دوڑ سنبھالی بلکہ ایک مثال قائم کی۔ قبل مسیح میں قدیم مصرکی ملکہ ہاتشپ سوت ( Hatshepsut ) سے لےکر جو پہلی فراعنہ ملکہ تھی، قلوپطرہ تک جو آخری فراعنہ ملکہ تھی ۔۔یہ خواتین بہادری ،ذہانت میں کسی سے کم نہ تھیں۔ بازنطین سلطنت کی تھیوڈرا ، روس کی کیتھرین دی گریٹ ، فرانس کی جوائن آف آرک ، انگلینڈ کی کوئین وکٹوریہ اور کوئین البزتھ ،اسٹریا کی میریا تھریسا، ہندوستان کی رانی لکشمی بائی تاریخ کی چند یادگار حکمراں اور جنگجو خواتین کہی جاتی ہیں ۔ اسلامی تاریخ پر نظر ڈالیں تو گیارہویں صدی میں یمن کی ملکہ ارواہ ال سلیہی ہیں جنہوں نے نصف صدی تک حکومت کی۔ تیرہویں صدی میں قلوپطرہ کے بعد مصر کے تخت پر بیٹھنے والی پہلی مسلم خاتون سلطانہ شجر الدر،مراکش کی سیدہ ال ہرا اور انڈونیشیا کی سلطانہ تاج عالم جیسی مزید روشن مثالیں بھی ہیں جہاں مسلم خواتین نے سلطنت کے امور بھی سنبھالے اور جنگیں بھی لڑی۔۔ ایسی ہی ایک تاریخ ساز مسلم خاتون تھیں رضیہ سلطان۔۔۔۔
خت دہلی کی جنگ صدیوں تک جاری رہی۔پہلے یہاں کے مقامی راجا مہاراجہ آپس میں جنگ و جدل میں مصروف رہے۔اس کے بعد دنیا بھر سے خصوصاً عرب اور ترک النسل حاکم یہاں آئے اور مخلتف ادوار میں مختلف سلطنتیں بنتی اور بگڑتی رہیں۔بڑے بڑے شہنشاہوں بادشاہوں نے تخت دہلی پر وقت گزارا ہے لیکن کوئی یہ تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ ہندوستان کے تخت و تاج پر ایک دن ایک عورت کی حاکمیت ہوگی۔
دہلی کے تخت پر کئی عظیم الشان حکمرانوں نے حکومت کی اور اپنا نام تاریخ میں درج کروایا۔ان تمام بڑے بڑے سورماؤں کے ساتھ تاج حکومت صرف ایک خاتون کے قدموں میں گرا۔تاریخ اسے جسے رضیہ سلطان کے نام سے یاد کرتی ہے۔ تیرہویں صدی میں جب مسلمان خواتین کا بے پردہ غیروں کے سامنا آنے کا تصور بھی محال تھا اس وقت ایک مسلم خاتون کا دہلی کے تخت پر حکومت کرنا ایک انتہائی مشکل اور بہادری کا کام تھا ۔
ہندوستان میں خاندان غلاماں یا مملوک سلطنت کی ابتدا قطب الدین ایبک نے 1210 میں کی ۔اس کے قتل کے سال بھر بعد اس کے گورنر التمش نے حکومت کی باگ دوڑ سنبھالی۔ سلطان التمش ایک غیر معمولی حکمراں تھے انھوں نے پچیس سال حکومت کی اور دہلی کے تخت کو مضبوطی عطا کی .خلیفہ وقت سے اپنے اقتدار کو منظور بھی کروایا اور ڈپلومیسی کے ذریعے منگولوں کو ہندوستان سے دور رکھا ۔سلطان التمش کی شادی قطب الدین ایبک کی بیٹی ترکان خاتون سے ہوئی تھی۔ان کے چار بیٹے اور ایک بیٹی رضیة الدنیا والدین تھی۔جس کی پیدائش 1205 میں ہوئی ۔۔
سلطان التمش نے اپنے بچوں کی تربیت پر خصوصی دھیان دیا۔رضیہ کو بھی اپنے بھائیوں کی طرح سپہ گری اور حکومت کے امور کی تعلیم دی گئی۔ رضیہ کے علاؤہ التمش کے تینوں بیٹے حکومت سنبھالنے کے اہل نہیں بن سکے۔ رضیہ کی تربیت جس انداز سے ہوئی تھی اس نے اسے پُر اعتماد ،بہادر اور معاملہ فہم خاتون بنا دیا ۔وہ اپنے والد کے ساتھ حکومتی امور کے معاملات میں مشورے دیا کرتی تھی اسی لئے 1231 میں گوالیار کے مشن پر جاتے ہوئے سلطان التمش نے رضیہ کو حکومت کا منتظم بنایا ۔رضیہ اپنے والد کے یقین پہ پورا اتری اور نظم و نسق احسن طریقے سے نبھایا۔ واپسی پر سلطان التمش نے رضیہ کو اپنا وارث قرار دینے کے لئے اپنے امراء اور قاضی سے مشورے کئے لیکن انھیں مخالفت کا سامنا کرنا پڑا ۔۔
سلطان التمش کے انتقال کے بعد رضیہ کے سوتیلے بھائی رکن الدین فیروز نے تخت پر قبضہ کرکے اپنے دوسرے بھائی قطب الدین کو قتل کردیا ۔رکن الدین اور اس کی والدہ شاہ ترکان کی سازشوں سے بھری حکومت سال بھر بھی قائم نہیں رہ سکی۔ کئی وزرا اور امراء ان کے خلاف ہوگئے ۔ایسے موقع پر رضیہ نے جامع مسجد میں لوگوں سے خطاب کیا اور ان سے انصاف طلب کیا ۔عوام نے رضیہ کا ساتھ دیا۔ رکن الدین کو سزائے موت دی گئی۔1236 میں رضیہ سلطان دہلی کے تخت پر بیٹھنے والی پہلی مسلم حکمران بنی ۔۔
رضیہ سلطان نے اپنے دور میں جو سکہ رائج کئے ان پر اپنا نام سلطانہ کی جگہ سلطان رضیہ الدنیا والدین لکھوایا ۔اس کے علاؤہ “خواتین کا ستون” اور “ملکہ وقت” کے خطاب بھی رضیہ کے لئے کہے جاتے رہے ہیں ۔رضیہ سلطان نے حکومت سنبھالنے کے بعد عباسی خلیفہ امام مستنصر کی بیعت کرکے اپنی حکومت کو منوایا ۔ رضیہ سلطان نے کئی اسکول ، اکادمی اور لائبریریاں بنوائی۔ ان اسکولوں میں قرآن و حدیث کے علاؤہ فلسفہ ، سائنس ، فلکیات اور مختلف علوم پڑھائے جاتے تھے۔
رضیہ سلطان نے عوامی تعاون سے تخت حاصل کیا تھا لیکن اکثر ترک امراء ایک عورت کی حکمرانی قبول کرنے کے لئے تیار نہیں تھے اس لئے رضیہ سلطان نے حکومت کی باگ دوڑ سنبھالتے ہی کئی غیر ترک امراء کو اہم پوزیشن پر تعینات کیا اور انتظامیہ میں کئی نئے عہدے بنائے اور بڑے پیمانے پر تبدیلیاں کیں۔جس کے باعث پرانے وزیر اعظم نظام المک محمد جنیدی نے چند وزرا کے ساتھ مل کر بغاوت کی ۔۔رضیہ نے خود فوج کی قیادت کی اور باغیوں کا خاتمہ کیا ۔۔اس کے علاؤہ بھی رضیہ سلطان نے کئی لڑائیاں لڑیں۔بغاوتوں کو کچلا کچھ علاقوں کو فتح کیا اور سلطنت کو مستحکم کرنے کی کوشش کی اور اس کام کے لئے رضیہ کو پردے سے باہر آکر مردانہ لباس پہننا پڑا۔ جسے اکثر امراء اور وزراء نے ناپسند کیا ۔رضیہ سلطان کو بطور ایک خاتون حکومت میں لاتے ہوئے کئی لوگوں کا خیال تھا کہ وہ اسے اپنی مرضی سے حکومت چلانے پر مجبور کر دیں گے لیکن رضیہ نے اپنی بہادری اور استقامت سے ان سب کو غلط ثابت کردیا اور اس چیز نے اس کے خلاف مسلسل بغاوت کو ہوا دی۔ ۔رضیہ سلطان کے خلاف افواہیں پھیلائی جانے لگی کہ وہ اپنے ایک افریقی غلام یاقوت میں دلچسپی رکھتی ہیں۔ قاضی نے اس الزام کے جواب میں رضیہ سلطان کو حکومت چھوڑ کر بھٹنڈا کے ترک گورنر اختیار الدین الطونیہ سے شادی کرنے کا حکم دیا ۔۔
رضیہ سلطان نے اس چیز کو ماننے سے انکار کردیا اور الطونیہ سمیت سارے باغیوں سے جنگ کرنے کی ٹھانی اور بڑی بے جگری سے لڑی لیکن بد قسمتی سے وہ یہ جنگ ہار گئی اور الطونیہ نے اسے قید کرلیا اور دہلی پر اس کے بھائی معزالدین بہرام کو تخت پر بٹھا دیا ۔۔رضیہ سلطان کی خوبصورتی اور بہادری سے متاثر ہوکر الطونیہ نے رضیہ سلطان سے شادی کرلی اور اسے ساتھ لے کر دہلی کی طرف بڑھا لیکن دونوں نے شکست کھائی اور انھیں وہاں سے فرار ہونا پڑھا آخر کار ایک گم نام کاشتکار کے ہاتھوں قتل ہوگئے ۔
رضیہ سلطان کے بارے میں لکھنے والوں میں سب سے اہم ابن بطوطہ ہیں جنہوں نے سو سال بعد رضیہ سلطان کا مزار دیکھا اور لوگوں کی رضیہ سلطان سے عقیدت نے اسے حیران کردیا تھا ۔رضیہ سلطان اپنے تکلیف دہ انجام کے باوجود لوگوں کے لئے ایک مشعل راہ تھی ۔ایک غلام کی بیٹی جو اتنے بڑی اور عظیم مملکت کی پہلی خاتون حکمران بنی۔ جس نے اپنی ذہانت بہادری اور ثابت قدمی سے لوگوں کو یہ دکھا دیا کہ عورت رسموں رواجوں کے دائروں میں رہتے ہوئے بھی کیا کچھ کرسکتی ہے۔ رضیہ سلطان کا عروج اور زوال دونوں ہی لوگوں کے لئے ایک سبق آموز باب ہے اسی لئے آج بھی انڈیا و پاکستان کے ناولوں ،ڈراموں اور فلموں میں رضیہ سلطان کی کہانیاں بیان کی جاتی ہیں ۔
رضیہ سلطان نے صرف پینتیس سال کی عمر پائی اور چار سال سے کچھ کم عرصہ حکومت کی لیکن اتنی مختصر زندگی میں تاریخ کے پنوں میں اپنا نام امر کردیا اور دنیا کو بتایا کہ زندگی میں کچھ کرنے کے لئے ایک طویل عمر ضروری نہیں ہے ۔کچھ لوگ روشن ستاروں کی طرح جیتے ہیں اور لوگوں کے لئے یادگار بن جاتے ہیں ۔