ہم قلندر ہیں شہنشاہ لقب کرتے ہیں

Rahat_Indori

 

ہم  قلندر ہیں شہنشاہ لقب کرتے ہیں

ایک حکومت ہے جو انعام بھی دے سکتی ہے

ایک قلندر ہے جو انکار بھی کرسکتا ہے

 سالِ رفتہ کو سانحوں کا سال کہیں تو غلط نہیں ہوگا ۔ سال 2020 کے 8 مہینے تواتر سے المناک خبروں کو سنتے گذرے۔ان سانحوں نے ذہن کو اس قدر تھکا دیا ہے کہ اب یہ محسوس ہونے لگا ہے کہ شاید کوئی نئی خبر سن کر دکھ نہیں ہوگا۔دہلی فسادات، آسٹریلیا کے جنگل میں لگی آگ ، امریکہ کے نسلی فسادات، بیروت میں دھماکہ اور کرونا سے پھیلی دہشت جس نے زندگی کو معطل سا کردیا ہے ۔ساتھ ہی تواتر سے آتی موت کی خبریں ۔احباب ،رشتہ دار، علما، اکابرین سے لے کر مختلف شعبہ کے مشہور افراد کا لقمہ اجل بن جانا ۔

 11 اگست کی صبح ایک اور خبر نے برصغیر میں غم کی لہر دوڑا دی ۔۔راحت اندوری صاحب اب نہیں رہے ۔ راحت صاحب اس عہد کا ایک بڑا نام اور اردو شاعری کے اس عہد کے نمائندہ شاعر تھے ۔اردو ہندی شاعری سے معمولی سا بھی شغف رکھنے والا ہر شخص اس نام سے شناسا ہوگا ۔۔سوشل میڈیا کی پوسٹ سے لے کر ٹی وی چینلز تک گونجتا راحت صاحب کا نام اس بات کا گواہ ہے اور ساتھ ہی اس تسلی کا باعث بھی کہ ایک عظیم شاعر کو اسے کے شایان شان خراج عقیدت پیش کیا جارہا ہے۔

 اندور کے محلے رانی پورہ میں ایک مل ورکر کے گھر آنکھ کھولنے و الے راحت رفعت اللہ قریشی نے سخت ترین حالات سے ابتدا کی اور مختلف شعبوں میں اپنی ہنر مندی کا لوہا منواتے ہوئے راحت اندوری کے مقام تک پہنچے۔۔اسکول کالج کی ہاکی اور فٹبال ٹیم کی کپتانی ، ایم اے میں گولڈ میڈل ، لکچرر شپ ،پی ایچ ڈی کےعلاوہ کمرشیل پینٹنگ اور بولی ووڈ کی منابھائی MBBS جیسی فلموں میں گیت لکھنے تک ہر جگہ خود کو بڑے زور و شور سے منوایا لیکن 1972 میں جنم لینے والا شاعر ان سب پر حاوی رہا۔ 70 80 کے دہائی سے ہی راحت اندوری نے مشاعروں میں اپنا وہ مقام بنالیا تھا کہ بقول منور رانا کئی مشاعرے ان کے نام سے منسوب کئے جانے لگے تھے ۔ اس دور میں شاعری ترنم سے پڑھنے کا رواج عام تھا لیکن راحت اندوری نے اس کامیاب ٹرینڈ کو چھوڑ کر اپنا ایک الگ ہی انداز قائم کیا ۔۔ راحت اندوری ایسے شاعر ہیں جنھیں سننا پڑھنے سے زیادہ لطف دیتا ہے۔کسی زمانے میں ان کے مشاعروں کے ویڈیو کیسٹ برصغیر اور مڈل ایسٹ میں بڑے شوق سے دیکھے جاتے تھے اور آج ٹیوب پر موجود ان کی بے حساب ویڈیوز اس بات کی گواہ ہیں کہ لوگ کس ذوق وشوق سے راحت صاحب کو سنتے ہیں ۔

مجھے 2003 کے ایک مشاعرہ میں راحت صاحب کو پہلی بار سننے کا اتفاق ہوا ۔وہ گوگل اور یوٹیوب سے قبل کا دور تھا اور راحت اندوری کے متعلق میری معلومات ان کی چند ایک مشہور غزلوں اور فلمی گیتوں تک محدود تھی اس لئے انھیں سن کر خوشگوار حیرت ہوئی ۔ان کے پڑھنے کا انداز تو دلچسپ ہے ہی ساتھ ان کی اعلی حس مزاح اور بیچ بیچ میں سنائے گئےچھوٹے چھوٹے قصے سامعین کو مکمل طور پر مسحورکر لیتے ہیں۔۔”اردو میں مشاعرہ” جیسے موضوع پر پی ایچ ڈی کرنے والے شاعر سے اس سے کم کی توقع نہیں ہوسکتی ۔ان کا وہ مشہور جملہ کہ “میرا کوئی بھروسہ نہیں ہے ۔۔میں کبھی بھی اچھا شعر کہ دیتا ہوں ” ۔۔سامعین کےلئے ہر بار ہی باعث لطف ہوا کرتا تھا ۔

 راحت صاحب کی شاعری میں جو چیز سب سے نمایاں ہے وہ ان کا کاٹ دار لہجہ ،حق گوئی اور ناانصافی کے خلاف اٹھائی ان کی آواز۔۔ان کی شاعری روایتی موضوع سے کہیں زیادہ حالات حاضرہ، سماجی رویے اور معاشرتی مسائل پر ہوتی ہے لیکن ان کےانداز میں سنجیدگی اور غمزدہ کیفیت کی جگہ طنز و مزاح کا انداز ایسا ہوتا ہے جیسے کوئی اپنا مضحکہ اڑا رہا ہو ۔جب وہ اپنی حب الوطنی کی بات کرتے ہیں تو ان کا لہجہ مدافعانہ نہیں دعودارانہ ہوتا ہے ۔

 ہے اب یہ حال کہ در در بھٹکتے پھرتے ہیں 

غموں سے میں نے کہا تھا کہ میرے گھر میں رہو 

 بہت غرور ہے دریا کو اپنے ہونے پر

جو میری پیاس سے الجھے تو دھجیاں اڑ جائیں 

 

 تجارتوں کا رنگ بھی عبادتوں میں آ گیا 

سلام پھیرتے ہی ہم ثواب مانگنے لگے

میں جگنوؤں کو منہ لگا کے الجھنوں میں پڑ گیا

یہ بے وقوف مجھ سے آفتاب مانگنے لگے

 

 میں پربتوں سے لڑتا رہا اور چند لوگ

گیلی زمین کھود کر فرہاد ہو گئے

 

 مصلحت کہیئے اسے یا کہ سیاست کہیئے

چیل کوؤں کو بھی، شاہین کہا ہے میں نے

 

 اپنی پہچان مٹانے کو کہا جاتا ہے

بستیاں چھوڑ کے جانے کو کہا جاتا ہے

پتیاں روز گرا جاتی ہے زہریلی ہوا

اور ہمیں پیڑ لگانے کو کہا جاتا ہے

 اور ان کی لکھی چنیندہ روایتی طرز کی غزلوں میں بھی ایک آدھ شعر کچھ ایسے مختلف انداز کا ضرور ہوتا ہے جس کا خیال بےساختہ واہ کرنے پر مجبور کردے ۔

 گلاب، خواب، دوا، زہر، جام، کیا کیا ہے

میں آ گیا ہوں بتا انتظام کیا کیا ہے

فقیر، شاہ، قلندر، امام کیا کیا ہے

تجھے پتہ نہیں تیرا غلام کیا کیا ہے

امیرِ شہر کے کچھ کاروبار یاد آئے

میں رات سوچ رہا تھا حرام کیا کیا ہے

میں تم کو دیکھ کر ہر بات بھول بیٹھا ہوں

تم ہی بتاؤ مجھے تم سے کام کیا کیا ہے

زمیں پر سات سمندر سروں پر سات آکاش

میں کچھ نہیں ہوں مگر اہتمام کیا کیا ہے

 راحت صاحب چاہے کسی اعلی تعلیمی ادارہ کے آڈیٹوریم میں اپنی شاعری پیش کریں یا کسی چھوٹے شہر کے مشاعرہ میں ان کے لئے اپنے سامعین کے دلوں کو جیتنا کبھی مشکل نہیں رہا اس کی ایک وجہ یہ بھی رہی ہے کہ ان کی شاعری میں خیال اور انداز جتنے بھی منفرد ہوں لیکن الفاظ بہت سادہ اور عام فہم ہوتے ہیں اور انہی عام الفاظ سے وہ بڑے مختلف قوافی چنتے تھے جن کا قیاس کرنے میں سامعین اکثر چوک جاتے ہیں ۔۔اس سلسلہ میں انہوں نے اپنی ایک غزل۔۔۔”اپنے ہاتھوں کو وہ پتوار بھی کرسکتا ہے ” کے بارے میں ایک دلچسپ واقعہ سنایا تھا کہ کس طرح کسی سننے والے نے پتوار کی جگہ تلوار کہ کر مصرعہ مکمل کرنے کی کوشش کی تھی۔۔منفرد قوافی کے ساتھ لمبے لمبے ردیف بھی ان کی شاعری میں جابجا نظر آتے ہیں ۔۔

 سلا چکی تھی یہ دنیا تھپک تھپک کے مجھے

جگا دیا تیری پازیب نے کھنک کھنک کے مجھے

میں جب بھی آپ کی محفل سے اٹھ کے جاتا ہوں 

گلے لگاتی ہے دنیا لپک لپک کے مجھے 

کوئی بتائے کے میں اسکا کیا علاج کروں۔

پریشاں کرتا ہے یہ دل دھڑک دھڑک کے مجھے

تعلقات میں کیسے دراڑ پڑتی ہے 

بتا دیا کسی کم ظرف نے چھلک چھلک کے مجھے

بہت سی نظریں ہماری طرف ہیں محفل میں 

اشارہ کر دیا اس نے ذرا سرک سرک کے مجھے

 

 غزل

جو دے رہے ہیں تمہیں پھل پکے پکائے ہوئے

یہ  پیڑ  ان کو  ملے ہیں لگے  لگائے 

ضمیر ان کے بڑے داغدار نکلیں گے

یہ پھر رہے ہیں جو  چہرے دھلے دھلائے ہوئے

زمین اوڑھ کے سوئے ہیں ساری دنیا میں

نہ جانے کتنے سکندر تھکے تھکائے ہوئے

یہ کیا ضروری ہے غزلیں بھی خود لکھی جائیں 

خرید لائیں گے کپڑے سلے سلائے ہوئے 

ہمارے دیش  میں کھادی  کی برکتیں ہیں میاں

چنے چنائے ہیں سارے  چھٹے چھٹائے ہوئے

 راحت صاحب کی شاعری اور لہجہ کی گھن گرج اور اہل اقتدار کے خلاف لکھی شاعری نے جہاں انھیں ایک بے باک اور نڈر شاعر کے طور پر پیش کیا وہاں یہ بھی دکھا دیا کہ ایوارڈوں کی ایک لمبی قطار بھی ان کے لفظوں کی دھار کم نہ کرسکی اور اس قلندر کا دھمال آخری وقت تک جاری رہا۔

 کام غیرضروری ہیں سب کرتے ہیں

اور ہم کچھ نہیں کرتے ہیں غضب کرتے ہیں

آپ کی نظروں میں سورج کی ہے جتنی عظمت

ہم  چراغوں کا بھی اتنا ہی ادب کرتے ہیں

ہم پہ  حاکم کا   کوئی   حکم نہیں چلتا  ہے

ہم قلندر ہیں شہنشاہ   لقب  کرتے ہیں

دیکھیے جس   کو  اسے دھن  ہے  مسیحائی  کی

آج کل شہر کے  بیمار  مطب  کرتے ہیں

خود کو  پتھر سا بنا  رکھا ہے  کچھ لوگوں نے

بول  سکتے ہیں مگر بات ہی   کب کرتے ہیں

ایک   ایک  پل کو کتابوں کی طرح پڑھنے لگے

عمر بھر  جو نہ  کیا ہم  نے  وہ   اب کرتے ہیں

 راحت اندوری اس عہد کے چند نمائندہ شاعروں میں سے ایک تھے جو اب ختم ہوا چاہتا ہے ۔ انھوں نے تقریبا نصف صدی تک اردو شاعری میں اپنی دھاک بنائے رکھی اور ایسے ادوار میں بھی جب سچ بولنا جرم ٹھہرا ، انہوں اپنی آواز کو بلند رکھا ۔۔اپنی اس حق گوئی، خوب صورت شاعری اور دلچسپ انداز بیان کے ساتھ لوگوں کے دلوں میں اور ان کی دعاوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گے اور جب جب اردو شاعری کا تاریخ دہرائی جائے گی راحت اندوری نام ضرور لیا جائے گا ۔