نیلی چھتری

نیلی چھتری از ظفر عمر

تبصرہ- مرزا صہیب اکرام

ظفر عمر کی شہرہ آفاق کتاب/رسالہ جس کے بارے میں ایک دعوی یہ بھی ہے کہ یہ اردو ادب کی اولین جاسوسی کتابوں میں سے ایک ہے کو پڑھنے کے لئے کئی دنوں سے ذہن و ماحول بنا رہا تھا. کہانی کے اختتام کے بعد اس کے فنی و ادبی محاسن پر تبصرہ حاضر ہے .
کہانی مکالمے ، کردار نگاری ، حقیقت نگاری ، نفسیات ، تاریخ اور فکشن میں سے کس کس معیار پر ادبی اعتبار سے پورا اتری . کہانی کی کیا کیا خوبیاں اور خامیاں پڑھنے والے کو اپنی جانب متوجہ کرتی ہیں ،یہ سب ان چند سطروں میں سمیٹنا چاہوں گا .
کہانی شروع ہوتی ہے مسٹر سہراب جی کے گھر چوری سے اور پھر انسپکٹر مرزا رحیم بیگ جو کوتوال ہیں وہ تفتیش کے لئے پہنچتے ہیں .
پھر کہانی میں اچانک ایک کردار محمود حسن جو علی گڑھ کا طالبعلم ہے آتا ہے اور ساری کہانی اس کے نام ہو جاتی ہے .
یہ کہانی شروع ہوتی ہے ایک چوری سے جس کا پردہ محمود حسن فاش کرتا ہے کہ یہ چوری بدنام زمانہ ڈاکو بہرام سنگھ نے کی ہے .
کہانی میں بے پناہ موڑ ہیں . بہرام ڈاکو کا کردار کہانی کی جان ہے . وہ چور بھی ہے وہ فلاسفر بھی ہے ، وہ تاریخ دان بھی ہے ،وہ عاشق بھی ہے ، وہ سائنس دان بھی ہے ،وہ ذہانت و فطانت کا ایسا نمونہ دکھایا گیا ہے کہ شاید ہی کسی کردار میں اس قدر رنگ کبھی اس سے قبل بھرے گئے ہوں .مگر اس کا مقابلہ ایک ایسے طالبعلم سے ہوتا ہے جو انٹر میڈیٹ میں ہے .
کہانی پڑھتے پڑھتے قاری با آسانی بہرام کی چالیں اور بچگانہ حرکتیں جو وہ آئندہ کرنے والا ہوتا ہے سمجھ لیتا ہے .
کہانی میں جاسوسی کا عنصر نا ہونے کے برابر ہے . کہانی بس ایک خاص لے میں چلتی ہے .جو پڑھنے والے کو بعض جگہ شدید بور کرتی ہے .کہیں بھی کسی اگلے منظر کا بے تابی سے انتظار نہیں ہوتا .نا ہی کوئی نیا منظر چونکا دینے والا آتا ہے .
خواتین کرداروں میں فیروزہ کا کردار منظر سے یکسر غائب ہونے کے باوجود کہانی سے مکمل جڑا ہوا ہے.مگر کردار جاندار نہیں ہے .
محمود حسن ایک منظر میں عقل و دانش ، ذہانت و فطانت کا نمونہ نظر آتا ہے مگر دوسرے ہی لمحے وہ ایک بزدل بچہ بنا ہوتا ہے .پوری کہانی محمود حسن اور بہرام کے مابین بھاگتی ہے .
الفاظ کا انتخاب ، جملے بعض جگہ پرانے اور بوسیدہ ہیں.
مصنف چوری کی کہانی میں اچانک لیلی مجنوں اور پھر تاریخ ہندوستان کو ایسے لے آتا ہے کہ پڑھنے والا پریشان ہو جاتا ہے .
کہانی میں فکشن اپنے جوبن پر ہے . مگر اس میں حقیقت کے رنگ اس قدر کمزور اور ہلکے ہیں کہ وہ سب فرضی لگتے ہیں .
اس کے لئے علاوہ سائنس فکشن بھی ہے .مگر اس کا تاثر نا مناسب حد تک جعلی محسوس ہوتا ہے .
مرزا رحیم بیگ اور پورے محکمہ پولیس کا کردار پوری کہانی میں ماسوائے وقت گزاری کے کچھ نہیں ہے .
کہانی کے پلاٹ پر یقینی طور پر ایک شاندار عمارت کھڑی کی جا سکتی تھی .مگر مصنف ایسا کر نہیں سکے.
مصنف کہانی میں ادبی چاشنی پیدا کرنے میں مکمل ناکام نظر آتے ہیں .
بہرام کے کردار پر بہت زور دیا گیا ہے مگر اس کے باوجود نا اس کردار سے نفرت ہوتی ہے ،نا ہمدری ، نا محبت ، وہ ایک ایسا کردار ہے جو کہانی کے ہر صفحے پر ہے مگر بے اثر ، یہی کیفیت محمود حسن کے کردار کو لے کر قاری کی ہوتی ہے .
مجموعی طور پر کہانی جاسوسی ، تفتیشی ، ادبی ، دھول دھپا سمیت تمام رنگوں سے دور ہے . وہ تم اجزا کہانی میں موجود نہیں ہیں جو ایک کہانی کو لازوال بناتے ہیں . کہانی اپنے اختتام تک اوسط درجہ سے اوپر نہیں جاتی.