حرف سادہ کو عنایت کرے اعجاز کا رنگ

حرف سادہ کو عنایت کرے اعجاز کا رنگ

فیض احمد فیض

تبسم حجازی/ مرزا صہیب اکرام

غالب سے فراز تک بہت کم شعرا ایسے آئے ہیں جن کو ان کی حیات میں ہی کامیابی ، شہرت ، مقبولیت اور عروج حاصل ہوا ہو ۔ شعرا کی زندگی میں اکثر وہ گمنام رہے یا زمانہ ان کے خلاف رہا مگر وقت کی رفتار کے ساتھ وہ ہر خاص و عام میں مقبول ہوتے چلے گئے ۔ وہ چند شعرا جن کو زندگی میں ہی عروج حاصل ہوا ۔ زمانہ جن کے فن کا قدر دان بنا ان میں ایک بڑا اور معتبر حوالہ فیض احمد فیض ہیں۔

فیض احمد فیض اردو کے چند ایسے شعراء میں سے ہیں جن کی پہچان صرف ان کی شاعری نہیں ہے۔ وہ اہنے نظریات اور گونا گوں شخصیت کی بنا پر بین الاقوامی شہرت رکھتے ہیں ۔ فیض احمد برٹش انڈیا اور پاکستان میں کمیونسٹ تحریک کے روح رواں سمجھے جاتے ہیں ۔ ان کی زندگی کے حالات انہیں ایک انسانیت پسند ، ہمدردر اور ظلم کے خلاف آواز اٹھانے والا شخص کی شکل میں پیش کرتے ہیں ۔ ان کی شاعری میں رومان اور انقلابی خیالات کا بہت خوبصورت امتزاج ملتا ہے اس لئے آج بھی جب جبر اور استعماری طاقتوں کے خلاف آواز اٹھتی ہے تو فیض کے الفاظ کی گونج ان میں سنائی دیتی ہے۔

بول کہ لب آزاد ہیں تیرے
،بول زباں اب تک تیری ہے
تیرا ستواں جسم ہے تیرا
بول کہ جاں اب تک تیری ہے
بول یہ تھوڑا وقت بہت ہے
جسم و زبان کی موت سے پہلے
بول کہ سچ زندہ ہے اب تک
بول جو کچھ کہنا ہے کہ لے

فروری 1911 میں سیالکوٹ کے ایک تعلیم یافتہ اور ادبی گھرانے میں پیدا ہونے والے فیض احمد کی زندگی کا سفر بہت تنوع رکھتا ہے۔ فیض کے والد سلطان محمد خان ، ڈاکٹر علامہ اقبال کے کلاس فیلو تھے۔ فیض احمد نے ابتدائی تعلیم مدرسہ سے شروع کی ، اس کے بعد مشن اسکول اور انگلش اور عربی میں ماسٹرز اور پھر ٹیچنگ سے شروع ہونے والا کیریئر مختلف ادوار سے گذرتا ہوا کئی رنگ دکھاتا ہے۔ اور اس چیز کا اثر ان کی شاعری میں بھی نظر آتا ہے۔
گورنمنٹ کالج لاہور میں فیض صاحب کے استادوں میں پطرس بخاری اور صوفی غلام مصطفی تبسم جیسی کئی مشہور شخصیتوں کے نام نظر آتے ہیں۔ اردو کے علاوہ عربی ، فارسی، انگلش اور پنجابی جیسی مختلف زبانوں پر عبور رکھنے اور شاعری میں کئی نئی اصطلاحات کو متعارف کرانے کے باوجود فیض صاحب کی شاعری سہل اور عام فہم محسوس ہوتی ہے۔ نقش فریادی میں شامل ابتدائی تخلیق میں روایتی رنگِ غالب نظر اتا ہے۔

وہ جس کی دید میں لاکھوں مسرتیں پنہاں
وہ حسن جس کی تمنا میں جنتیں پنہاں
ہزار فتنہ تہہ پائے ناز خاک نشین
ہر ایک نگاہ خمارِشب سے رنگین

تم آئے ہو نا شب انتظار گذری ہے
تلاش میں ہے سحر بار بار گذری ہے
ہوئی ہے حضرت ناصح سے گفتگو جس شب
وہ شب ضرور سرِ کوئے یار گذری ہے۔

فیض صاحب نے 1935 میں اپنے کیرئیر کی شروعات بطور استاد کی ۔ اس دور میں فیض صاحب نے اس وقت کی مختلف ادبی شخصیتوں اور دانشوروں کے ساتھ جو وقت گذارا اس نے ان کے نظریہ زندگی کو کافی متاثر کیا اور یہیں سے سجاد ظہیر کے ساتھ انجمن ترقی پسند مصنفین کی شروعات ہوئی اور فیض صاحب اس کے پہلے سیکریٹری منتخب ہوئے۔ 1938 میں فیض کی زندگی میں آنے والی الیس فیض جو فیض کی شریک حیات ہی نہیں ان کے سیاسی خیالات کی ہم نوا اور ان کی جدوجہد کی بھی شریک رہیں ۔

رات یوں دل میں تری کھوئی ہوئی یاد آئی
جیسے ویرانے میں چپکے سے بہار آجائے
جیسے صحراؤں میں ہولے سے چلے باد نسیم
جیسے بیمار کو بے وجہ قرار آجائے

1942 فیض صاحب کے کیرئر میں نیا موڑ لایا۔اور وہ برطانوی فوج کے روابطہ عامہ میں بطور لیفٹنٹ تعینات ہوئے اور 1946 میں لیفٹنٹ کرنل کے عہدہ تک پہنچے۔ اس پر آشوب دور میں جب انڈیا اور پاکستان میں آزادی کا سورج جس انداز سے طلوع ہوا ہے اسے فیض صاحب نے ان الفاظ میں یاد رکھا۔
یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا، یہ وہ سحر تو نہیں
یہ وہ سحر تو نہیں جس،کا انتظار لے کر
چلے تھے یار کی مل جائے گی کہیں نہ کہیں

1947 میں فیض صاحب ، پاکستان ٹائمز کے ایڈیٹر بنے اور اپنی شاعری کے علاوہ اپنے مضامین اور اداریہ میں بھی وہ پارٹیشن کے دوران ہونے والے انسانی جان کے زیاں پر لکھتے رہے۔ اگلے کچھ سال پاکستان کمیونسٹ پارٹی سے جڑے رہنے کے ساتھ ساتھ فیض صاحب کئی سرکاری عہدوں پر بھی فائز رہے ۔ 1951 میں راولپنڈی کیس میں فیض صاحب نے اگلے چار سال جیل میں گذارے ۔ یہ ذاتی طور پر ایک مشکل وقت تھا لیکن فیض صاحب کی شاعری کو اس قید نے اور جلا بخشی۔ دست صبا اور زنداں نامہ اس دور کی بہترین تخلیقات کا ثبوت ہیں جو مونٹگمیری سے کراچی کی جیل کے دیواروں کے بیچ وجود میں آئیں ۔ان کے علاوہ فیض کے لکھے خطوط “صلیبیں میرے دریچہ” کے نام سے شائع ہوئے ہیں۔

جاں بیچنے کو آئے تو بے دام بیچ دی
اے اہل مصر ،وضعِ تکلف تو دیکھئے
انصاف ہے کہ حکمِ عقوبت سے پیشتر
اک بار سوئے دامنِ یوسف تو دیکھئے

ہم پرورش لوح و قلم کرتے رہیں گے
جو دل پہ گذرتی ہے رقم کرتے رہیں گے
ہاں تلخئی ایام ابھی اور بڑھے گی
ہاں اہل ستم مشق ستم کرتے رہیں گے
باقی ہے لہو دل میں تو ہر اشک سے پیدا
رنگ لب و رخسار صنم کرتے رہیں گے

فیض کے کلام میں ایسا کیا تھا جس نے ان کو زندگی میں بھی زندہ رکھا اور اس کے بعد کئی دہائیاں گزر جانے کے بعد بھی فیض روز اول کی طرح مقبول عام ہیں ۔ فیض احمد فیض نے اپنی شاعری کسی ایک خاص دور کے زیر اثر نہیں کی. بلکہ وہ ہر دور کے شعری تقاضوں کے عین مطابق تھی۔ وہ کہیں محبوب کی بانہوں میں نظر آنا چاہتے ہیں اور کہیں وہ طوفانوں سے ٹکرانے کی بات کرتے ہیں۔ وہ کہیں تعمیر کی بات کرتے اور کہیں وہ ظلم و جور دیکھ کر باغی کا روپ دھارتے نظر آتے ہیں .اسی لئے ان کو کسی بھی دور میں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔

1955 میں قید سے رہائی کے بعد فیض صاحب پھر سے پاکستان ٹائمز سے منسلک ہوگئے ۔ یہ سرد جنگ کا دور تھا۔ اشتراکی نظریات کو سنسر شپ کا سامنا تھا ۔کچھ عرصہ اور جیل میں گذارنے کے بعد 1962 میں لینن پیس پرائز سے نوازے گئے اس موقع پر کی گئی ان کی تقریر یادگار سمجھی جاتی ہے۔

“انسانی حمکت ،سائنس اور صنعتی ترقی نے یہ ممکن کردیا ہے کہ ہر انسان کو زندگی کی آسانیاں میسر ہوسکیں اگر یہ بے پایاں قدرتی وسائل اور پیداوار صرف چند زر پسندوں کی ملکیت نہ بنے رہیں اور ساری انسانیت کی فلاح کے لئے ہوں ۔ لیکن یہ اسی وقت ممکن ہے جب انسانی معاشرہ کی بنیاد لالچ اور لوٹ کھسوٹ نہ ہو کر انصاف ، مساوات ، آزادی اور سب کی فلاح و بہبود ہو اور مجھے یقین ہے آخر کار انسانیت ہی کی فتح ہوگی”

یہ ان کے رنگ ہیں ۔ جو ان کو سب سے ممتاز کرتے ہیں ۔ فیض کے کمیونسٹ نظریات ہوں یا ترقی پسندی اس پر بہت سے سوال اٹھائے جا سکتے ہیں ۔ ان کا دفاع بھی کیا جا سکتا ہے ۔ وہ نظریاتی طور پر درست ہوں یا غلط کیا اس سے بطور شاعر ان کے ادبی قد پر اثر پڑتا ہے ۔ کیا اس سے ان کے کلام میں حسن و رعنائی کم ہوتی ہے ؟ نہیں ہرگز نہیں۔
فیض کی بلندی ان کی شاعری میں پنہاں ہے ۔ فیض کی سب سے بڑی خوبی اور ان کا حسن ان کی تحریر میں محبت و پیار کے جذبات کے ساتھ انقلاب کا نعرہ تھا۔ وہ استحصالی نظام کی شکست و ریخت کو دیکھنا چاہتا تھا ۔ وہ رومان پسندی کا بادشاہ ہوتا مگر زمانے کے حوادث بھی اس کو جھنجھوڑ رہے تھے۔ وہ تخت و تختہ دونوں راہوں کا مسافر تھا۔

مقام فیض کوئی راہ میں جچا ہی نہیں
جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے

فیض کا یہ شعر صرف ایک شعر نہیں ہے ۔ یہ ان کی زندگانی کی ایسی حقیقت ہے جس کو کسی طور نظر انداز نہیں کیا جا سکتا. وہ جب وقت اور زمانے کی ستم ظریفیاں دیکھ رہے تھے تب وہ پیار کے نغمے گا سکتے تھے مگر ان کو راستہ چھوڑنا پڑا.اسی لئے وہ کہتے ہیں یار سے دار کے درمیان کچھ جچا نہیں۔ وہ انسانی حسن و جمال اور محبوب کی رعنائیوں کی بجائے عالم انسانیت کے دکھوں کی جانب چلنا سعادت سمجھتے ہیں ۔ ان کے اپنے وجود پر لگے کچوکے وہ تلخی زمانہ کی خاطر بھلا دیتے ہیں ۔ یہ فیض کا وہ رنگ ہے جو ان کو بلند کرتا ہے وہ باغ و بہار کے ساتھ اندھی غار کا سفر بھی مسکرا کہ کرتے ہیں۔

رات یوں دل میں تیری کھوئی ہوئی یاد آئی
جیسے ویرانے میں چپکے سے بہار آجائے
جیسے صحرائوں میں ہولے سے چلے باد نسیم
جیسے بیمار کو بے وجہ قرار آجائے
فیض جب جب رومان پسندی کی بات کرتے ہیں وہ نہایت اعلی انداز میں سطحیت اور عامیانہ پن کی بجائے گہرائی میں اتر جاتے ہیں ۔ وہ محبوب کے خواب کو خیال سے وہ روشنی عطا کرتے ہیں جس سے پڑھنے والا بھی دشت کو باغ محسوس کرتا ہے وہ غم و درد کی طویل رات میں بھی ٹھنڈی ہوا کو محسوس کرتے اور کراتے ہیں۔ ان کے لکھے میں بےساختگی بھی اور رومانیت بھی ۔ وہ لہجے کی سختی کو بیان بھی کر جاتے ہیں اور محسوس بھی نہیں ہونے دیتے۔

1974 میں ڈھاکہ سے واپسی پر لکھی یہ یادگار غزل

ہم کے ٹھہرے اجنبی اتنی ملاقاتوں کے بعد
پھر بنے گیں آشنا کتنی ملاقاتوں کے بعد
ان سے جو کہنے گئے تھے فیض جاں صدقہ کئے
ان کہی ہی رہ گئی وہ بات سب باتوں کے بعد

ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں فیض صاحب وزرات تعلیم میں ثقافتی اتاشی مقرر ہوئے ۔ لوک ورثہ فیض صاحب کی اسی دور کی کوششوں کا نتیجہ ہے۔
فیض محبت پیار رومان کے ساتھ وقت کے جابروں ظالموں کے سامنے سینہ سپر بھی ہوتے ہیں ۔ وہ وقت کی نبض کو سمجھ کر جہاں آنے والے حالات سے ظالموں کو آگاہ بھی کرتے ہیں اور بتاتے بھی ہیں وہ وقت بھی قریب تر ہے جب حساب لیا جائے گا۔ وہ مظلوم ، بے کسوں کے لئے امید کی کرن بھی ہیں ۔ وہ انقلاب کی راہ میں بھی کشت و خون کی بجائے درس قربانی دیتے ہیں۔ یہ ضرور ہے وہ صعبتوں اور سختیوں کے آنے کا پیغام دیتے ہیں مگر تب بھی وہ اپنے اصولوں پر سمجھوتا کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔ فیض جانتے تھے جس راہ کا انتخاب وہ کر چکے ہیں اسکی قیمت بہت بڑی اور کڑی ہے ۔ اب جیل ہے ، درد ہیں ، مصیبتیں ہیں ، الزام ہیں ، ہتھکڑیاں ہیں مگر وہ اپنے افکار کو با آواز بلند کرتے رہے ۔

میں تو ہر طرح سے اسباب ہلاکت دیکھوں
اے وطن کاش تجھے اب کے سلامت دیکھوں
وہ جو بے ظرف تھے اب صاحب میخانہ ہوئے
اب بمشکل کوئی دستار سلامت دیکھوں
اس راہ میں جو سب پہ گزرتی ہے وہ گزری
تنہا پس زنداں کبھی رسوا سربازار
گرجے ہیں شیخ بہت سرگوشہ ممبر
کڑکے ہیں بہت اہل ستم برسردربار
چھوڑی نہیں غیروں نے کوئی ناوک دشنام
چھوٹی نہیں اپنوں سے کوئی طرز ملامت
اس عشق نہ اس عشق پرنادم ہے مگر دل
ہر داغ ہے اس دل میں بجز داغ ندامت

فیض احمد فیض زمانے کے تمام بتوں سے ٹکرا کر بھی نا پیچھے ہٹتے ہیں نا نیچے ہٹتے ہیں ۔ وہ امید کا ایسا روشن دیا بننا چاہتے ہیں جس کی لو میں بے بس انسان تخیل میں آنے والی اس صبح کا نظارا کریں جس کو پانے کی پاداش میں ان پر ظلم کے کوہ گراں گرنے والے تھے ۔ وہ وقت کے فرعونوں کو للکار کر ان کے سامنے سچ کہنے سے چوکتے نہیں ۔ وہ سر عام وہ کہتے ہیں جس کو لوگ سننا چاہتے ہیں ۔ وہ دار و رسن کے ساتھ مٹی کی محبت کا انمول درس بھی دیتے ہیں ۔ وہ واضح انداز میں مٹی سے محبت کی قیمت بھی ساتھ بتا جاتے ہیں ۔

نثار میں تیری گلیوں کے اے وطن کے جہاں
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اُٹھاکے چلے
جو کوئی چاہنے والا طواف کو نکلے
نظر چرا کے چلے جسم و جاں بچا کے چلے

فیض کی شاعری میں انقلاب ہے رومان ہے سیاسی اور سماجی تحریکوں کا شور ہے .وہ رومانیت کو اس بلندی پر لے جاتے ہیں کہ پڑھنے والا کب گلشن سے کوچہ و بازار میں علم اٹھائے چلا جاتا ہے پتا ہی نہیں چلتا۔ ان کے ہاں زمانے کے حالات تجربات ، سماجی مسائل ریاستی جبر الغرض ہر چیز ملتی ہے ۔ فیض کی شاعری کا دور آزادی ، تقسیم ، ہنگام ، سیاسی عروج و زوال کا دور تھا۔ دنیا میں نظریاتی تقسیم کی گہری ہوتی خلیج کو وہ اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ رہے تھے ۔ ان کے سامنے ایک درد ناک ماضی ، پر شور حال اور ایسا مستقبل تھا جس میں بے پناہ جدوجہد اور قربانی ہی قربانی تھی۔ ان کے سیاسی نظریات ، ان کے ادبی افکار سے اتفاق و اختلاف کیا جا سکتا ہے۔ کہا جا سکتا ہے وہ جس کلاس کے لئے شاعری کیا کرتے تھے ان سے ان کا حقیقی تعلق نہ تھا۔ وہ اونچی سوسائیٹی کے فرد تھے ۔ ان کا قرب پانا شاید اس دور کے مزدور غریب طبقہ کے لئے ممکن نہیں تھا۔ وہ جس طبقہ کی ہمہ وقت باتھ کرتے رہے شاید ان کہ اندر جا کر وہ کبھی دیکھ نہیں پائے۔ زم زم پی کر پیاس پر شعر لکھنے جیسے حالات سے وہ دو چار رہے ۔ ترقی پسندی کی تحریک کے وہ بانیان میں سے تھے مگر جب حق سچ کا موقع آیا ان کو عملی طور پر ناکام دیکھا گیا ۔ وہ وقت کی تیز دھار کا سامنا نا کر سکے ۔

ان کو منٹو کا شاہکار ٹھنڈا گوشت ادب نہیں لگام وہ یہاں پر چوک گئے۔ یہ وہ تنظیمی جنگ تھی جس نے ایک بڑے شاعر کو چھوٹا انسان بنا دیا۔ ادب کی منڈی میں منٹو کی عظیم تخلیقات کو جب روندھا گیا تب فیض صاحب اس کیمپ میں نظر آئے جو ادب دشمن تھا۔ جو ادب کو کو محدود و مقید کرنا چاہتا تھا۔ اس تاریخی بددیانتی ، فکری اختلافات ، سوشل نظریات کو ماننے نا ماننے کے باوجود فیض اپنے عہد کا سب سے معتبر حوالہ تھے ۔ ذاتی کردار میں سو خامیاں ہو سکتی ہیں ان کے طرز عمل سے انکار کیا جا سکتا ہے مگر ان کے ادبی قد کو کسی طور چھوٹا نہیں کیا جا سکتا ۔ وہ اپنے عہد کے بلند ترین شاعر تھے ۔ جن کے قلم سے ایسے ایسے شہکار جنم لیتے رہے جو زمان و مکان کی حدود سے آزاد ہیں ۔ ان کا قلم کسی ایک فرد ایک ادارے ، ایک جماعت ایک رنگ ایک نسل ایک قوم ایک ملک یا ایک دور کے لئے نہیں ہے ۔ وہ دنیا کے تمام مظلوموں ، محکوموں اور پیسے ہوئے طبقات کے حقیقی نمائیندہ شاعر ہیں . ان کا لکھا کسی بھی دور میں پرانا یا بوسیدہ نہیں ہوگا کیوں کہ انھوں نے انسان کے ان غموں ، تکالیف اور پرشانیوں کا ذکر کیا ہے جو دنیا کے تمام انسانوں کو ہر روز برداشت کرنی پڑتی ہیں . یہی وجہ ہے فیض صاحب کا کلام ہر دور کا کلام ہے اور رہے گا ۔

اپنے وقت کا سب سے بڑا انسان بڑا شاعر بڑا ادیب اپنوں کے ظلم کا شکار رہا ۔ اس کو اپنوں نے کئی بار ٹھکرایا ۔ دیس سے کئی بار دیس نکالا ہوا ۔ کتنے زخم ان کے وجود پر لگے ۔ یہ وہی جانتے ہیں۔ ہاں مگر ان کو گہرائی میں اتر کر پڑھنے والا بھی سمجھ سکتا ہے ۔ دیار غیر تو ان کے لئے ہمیشہ گھر بنا رہا مگر گھر میں وہ اجنبی ہی رہے۔ جلاوطنی کے دور میں بھی ان کا دل وطن کے لئے دھڑکتا رہا ۔

1979 میں فیض صاحب وطن بدر ہوکر بیروت پہنچے اور وہاں تین مشکل سال گذارے ۔

میرے دل میرے مسافر
ہوا پھر سے حکم صادر
کہ وطن بدر ہوں ہم تم
دیں گلی گلی صدائیں
کرے رخ نگر نگر کا
کہ سراغ کوئی پائیں
کسی یار نامہ بر کا
ہر اک اجنبی سے پوچھیں
جو پتہ تھا اپنے گھر کا

1982 میں فیض صاحب پاکستان لوٹ آئے اور 1984 میں نوبل پرائز کے لئے نامزد ہوئے ۔ وہ نوبل نہ جیت سکے مگر ہزاروں لاکھوں کروڑوں انسانوں کے دلوں میں ایسی جگہ اور محبت بنا گئے جو بہت سے نوبل یافتہ شاید کبھی نہ بنا سکیں۔ اسی سال اردو ادب یہ یہ جیتا جاگتا نوبل اپنے آخری سفر پر روانہ ہوا۔ وہاں سے ان کی واپسی تو ممکن نہیں مگر ان کا زندہ کلام ان کو دلوں میں جوان رکھے ہوئے ہے ۔

نہ گنواوں ناوکِ نیم کش، دلِ ریزہ ریزہ گنوا دیا
جو بچے ہیں سنگ سمیٹ لو ،تنِ داغ داغ لٹا دیا
میرے چارہ گر کو نوید ہو ،صفِ دشمناں کو خبر کرو
وہ جو قرض رکھتے تھے جاں پر،وہ حساب آج چکا دیا
کرو کج جبیں پہ سرِ کفن،میرے قاتلوں کو گماں نہ ہو
کہ غرورِ عشق کا بانکپن، پسِ مرگ ہم نے بھلا دیا

دونوں جہان تیری محبت میں ہار کے
وہ جا رہا ہے کوئی شب غم گزار کے
اک فرصت گناہ ملی وہ بھی چار دن
دیکھے ہیں ہم نے حوصلے پروردگار کے

تیری صورت سے ہے عالم میں بہاروں کو ثبات
تیری آنکھوں کے سوا دنیا میں رکھا کیا ہے

جب کبھی بکتا ہے بازار میں مزدور کا گوشت
تو شاہراہوں پہ غریبوں کا لہو بہتا ہے
ناتوانوں کے نوالوں پہ جھپٹتے ہیں عقاب
اپنے دل پہ مجھے قابو ہی نہیں رہتا ہے۔