اے موت تونے مجھ کو زمیندار کردیا

اے موت تونے مجھ کو زمیندار کردیا

نسیم صبح ہر گھر میں ایک سی اترے یہ تو ممکن نہیں ہوتا . کہیں کہیں تو موسم بدلنے کا حالات و واقعات بدلنے سے کوئی تعلق نہیں ہوتا .غریب کے گھر میں بس موسم بدلتے ہیں باقی سب جوں کا توں ہی رہتا.
کرائے کا مکان کرائے کا رکشہ دو معصوم بچے ایک اطاعت شعار بیوی کے ساتھ یونس زندگی میں بہتری کی امید پر محنت کر رہا تھا .
شہر کی رونق سے باہر ایک قصبے میں اس کے گھر میں بمشکل چولہا جلتا تھا . رکشہ کے مالک کو حصہ دینے کے بعد بس اتنا بچ رہتا تھا کہ دال روٹی چل رہی تھی . اس کے دونوں بچے ابھی سوچنے سمجھنے کی عمر سے کم تھے .وقت نے انگڑائی لی.دنیا پلک جھپکنے میں ایک بڑے قبرستان میں تبدیل ہو گئی تھی . ملکوں ملکوں وبا کے بعد لوگوں نے خود کو خوف ڈر کی وجہ سے گھروں میں قید کر لیا تھا لیکن غریب کے پاس تو ایسا کوئی چارہ نا تھا کہ گھر بیٹھ کر کچھ کھا پی سکتا .
ساری دنیا کے غریب وبا اور بھوک دونوں سے لڑ رہے تھے . لیکن ابھی تک یونس کے گھر میں روٹی چل رہی تھی . کیوں کہ ابھی تک اس جانب وبا کا زور نہیں تھا اس لئے حکومت کی طرف سے سختی نہیں تھی .
پھر منحوس گھڑی اس شہر کے مکینوں کے لئے آئی اور اس کے بعد بھوک نے انسانوں کے جذبات کو نگل لیا . ہر جانب نفسا نفسی کا عالم برپا ہو چکا تھا .حکومت نے لاک ڈاؤن کا اعلان کر دیا اس کے ساتھ ساتھ تمام ادارے بند کر دیے گئے . ہر قسم کی ٹرانسپورٹ پر پابندی لگا دی گی.
مالک نے یونس سے جب رکشہ واپس لیا تو یونس کی آنکھوں کے آگے تارے ناچ گئے.گھر کے حالات اور خالی جیب نے اس کو ذہنی طور پر پاگل کر دیا تھا.گھر تک کے سفر میں اس نے کیا کیا دیکھا کیا کیا جھیلا اس غم کو کوئی نہیں جان سکتا .
ابا یہ قلفی کیا ہوتی ہے .چھوٹی عظمیٰ نے صحن میں داخل ہوتے ہوۓ باپ سے سوال کیا .
یونس نے بچی کے معصوم چہرے کی جانب پیار محبت اور فکر سے دیکھا .اور اسکو بتانے لگا کہ قلفی کیا ہوتی ہے .
ابا مجھے کھانی ہے . آج میری دوست نے بھی کھائی. 8 سالہ بیٹی کی چھوٹی سی پہاڑ جیسی خواہش پر یونس سوائے وعدے کے دے بھی کیا سکتا تھا . اس نے کئی وعدے کئے کئی خواب دکھائے اس کے پاس بس یہی ایک آخری چیز باقی تھی . بچے خواب سنتے سنتے سو گئے.
لیکن یونس کو آنے والے وقت کو فکر کھا کھا رہی تھی.
آپ آج کھوئے سے کیوں ہیں . نیک بخت بیوی نے سوال کیا .
مالک نے رکشہ واپس لے لیا ہے . سرکار نے کچھ وقت کے لئے ہر سواری پر پابندی لگا دی ہے . کل سے سارا شہر بند رہے گا
تو اب کیا ہوگا ؟ صغری نے پریشانی سے کہا۔
جو اللہ کو منظور ہوا وہ ہوگا ۔
اس کے بعد دو مایوس انسان مسقبل کے خوفناک حالات کا تصور کرتے نیند کی تلاش میں آنکھیں موند کر لیٹ گئے
اگلی صبح اور اس کے اور بہت سی کئی صبحیں گذر گئیں۔غریب کا چولہا تو ہر روز بجھتا ریا اور اس کے خواب اس کی خوشیاں ہر روز آنگن میں راکھ ہونے لگیں ۔
یونس صبح سویرے گھر سے نکل جاتا ۔اس کے بچے نہیں جانتے تھے کہ ان کا خوددار باپ دو وقت کی روٹی کے لئے روزانہ کتنے گھروں کے دروازوں پر دستک دیتا تھا ۔
حالات سے سہمے ہوئے لوگ امداد بھی اب کم کرنے لگے تھے۔ کون جانے یہ منحوس وبا کب تک چلے گی ۔جس کے پاس جو کچھ محفوظ تھا وہ اس کو بچا کر رکھنا چاہتا تھا ۔
یونس روزانہ اپنی عزت خودداری اور نفس کو سلا کر بچوں کو پال رہا تھا ۔اس نے بھوک سے بلکتے بچوں کے زرد چہروں پر تازگی لانے کی خاطر اپنی انا کو کب کا تیاگ دیا تھا۔
وبا اپنے نام کے ساتھ عملی طور پر بھی شہر کا رُخ کرچکی تھی ۔موت کے ہرکارے امیر و غریب کی تقسیم و تفریق کے بنا ہی ہر نظر آنے والے کو اُچک رہے تھے ۔
اس دن کی شام یونس کے آنگن میں عید جیسی تھی۔ بڑے دنوں بعد گھر میں سب نے پیٹ اور نیت دونوں بھر کر کھانا کھایا تھا۔ بچے آج خوشی خوشی سو گئے تھے۔
آج اچانک اتنا راشن کہاں سے لے آئے آپ؟ بیوی نے بدلتے ہوئے حالات پر غور کرکے کہا ۔
بس نیا کام ملا ہے ۔یوں سمجھو اللہ نے سن لی ہے ۔اب سے گھر میں بھوک نہیں ہوگی ۔
لیکن کام کیا ہے ؟
بس تم اس سب کو چھوڑو ۔ اللہ سے دُعا کرو .روزی میں برکت ڈالے ۔
نیک بخت نے دل سے دعا کی ۔
اب گھر میں دال روٹی چلنے لگی تھی ۔ بچے بلک کر رونا چھوڑ چکے تھے ۔۔گھر میں راشن بھی موجود تھا ۔
ابا مجھے قلفی کھانی ہے۔ بیٹی نے بہت دن پرانے ایک وعدے کی یاد دلائی
ہاں ہاں میری بٹیا ہم آج ہی جائیں گے ۔
شام کے وقت چار افراد کا یہ کنبہ قلفی کی تلاش میں روانہ ہوا۔ آخر ایک جگہ قصبہ میں جہاں انتظامیہ کے لوگ رات گئے کے بعد کم ہی آتے تھے ۔ایک قلفی والا نظر آگیا ۔
بچوں کے چہروں کی چمک دمک سے یونس کی خوشی دیکھنے لائق تھی ۔سب نے دو دو قلفیاں کھائیں ۔بچے زندگی میں پہلی بار اس قدر بڑی عیاشی کررہے تھے ۔
ابا یہ بہت مزے کی ہے۔ مجھے روز کھانی ہے ۔ننھے بیٹے نے قلفی ختم کرکے انگلیاں چوستے ہوئے کہا۔
ہاں ، کل بھی میرا بیٹا ضرور کھائے گا۔
یہ رات غریب خاندان نے خوب کھا پی کر بسر کی۔ شہر کے سناٹوں میں بھی اس گھر میں زندگی کا پہیہ ہوری آب و تاب سے چل پڑا تھا۔
جب شہر قبرستان لگنے لگے تھے۔جب انسان نے انسانوں کے وجود کو ہی موت سمجھ لیا تھا ۔اس گھر پر رحمت کا فرشتہ نازل ہوچکا تھا ۔۔
اگلی صبح یونس سو کر اٹھا تو اس کا جسم کچھ گرم تھا ۔اس نے ناشتہ کیا اور کام پر روانہ ہوگیا ۔سارا دن مصروفیت میں گذرا لیکن شام کو گھر واپسی کے بعد اس کا جسم آگ کی طرح تپنے لگا ۔
صغری نے کھانا ،دوا سب کچھ دیا لیکن بخار کا زور نہ ٹوٹا ۔اگلے دن یونس کام پر نہ جاسکا ۔دوپہر کے وقت غریب کی کٹیا کے باہر آکر گاڑی رکی ۔
اہل محلہ حیران تھے ۔
گاڑی سے چند سرکاری لوگ مکمل ماسک پہنے ،خود کو چھپائے برآمد ہوئے ۔
یونس کے دروازے پر دستک دی۔صغری نے دروازہ کھولا ۔
جی کہیں، آپ لوگ کون ؟ صغری گاڑی اور اتنے لوگوں کو دیکھ کر بوکھلا گئی ۔
یونس کہاں ہے ؟ آج وہ کام پر نہیں آیا؟
اس کی طبیعت تھوڑی خراب ہے۔۔صغری نے جواب دیا
اسے کہو لازمی کام پر آجائے ۔ورنہ بہت سے مُردوں کا آج کفن دفن نہیں ہوگا ۔ وبا سے مرے ہوئے لوگوں کو کوئی ہاتھ لگانے کو تیار نہیں ۔اگر یونس نہ آیا تو مردوں کو غسل کون دے گا ۔
یہ سن کر صغری کے ہوش اڑ گئے
سرکاری لوگ کب واپس گئے ۔اس کو پتہ ہی نہیں چلا۔لیکن اس کے قدموں میں جان نہیں تھی ۔
یونس تم وبا سے جان بحق لوگوں کو غسل دے کر ان کی تدفین کرتے ہو ؟ صغری نے اندر آکر سوال کیا
ہاں ۔لیکن تم کو کس نے کہا ؟
ابھی باہر کچھ بابو لوگ آئے تھے ۔
دیکھو اپنے یونس کا نام ۔بڑے بڑے سیٹھ لوگ آج کل میرے پیچھے ہیں ۔
لیکن اگر تم کو کچھ ہوگیا تو؟
ارے کچھ نہیں ہوگا ۔۔سیٹھ لوگ بس ڈرتے ہیں ۔وبا کچھ نہیں ہے ۔دعا کرو میں ٹھیک ہو جاوں ۔
اگلے دو دن یونس کام پر نہ جاسکا۔اس کی طبیعت میں بہتری نہیں آرہی تھی ۔دو نوں بچے بھی نزلہ، کھانسی اور بخار میں مبتلا ہوچکے تھے ۔صغری بھی دو ہی دنوں میزن مرجھا گئی تھی ۔
اس دن دو سرکاری ایمبولینس آکر رکیں۔ اندر سے چند سفید پوش باہر نکلے ۔اس کٹیا کو ایسے گھیر لیا گیا ۔جیسے ویاں پر کچھ بہت بھیانک کام ہونے والا ہو ۔
تھوڑی ہی دیر میں یونس ،اس کی بیوی اور بچے ویاں سے وبا سینٹر کی جانب لیجائے جارہے تھے ۔ان کے گھر کو سیل کر دیا گیا تھا۔
یونس اور باقی سب کا ٹیسٹ ہوا تو خدشات درست نکلے ۔پورا گھر بھوک مٹانے مٹاتے ظالم وبا(بیماری) کا شکار ہوچلا تھا۔
چند ہی دنوں میں یونس ، اس کی بیوی اور بچے ایک ایک کرکے بھوک کی پہنچ سے بہت دور نکل گئے ۔
سیٹھ لوگوں کی میتوں کو قبروں کے سپرد کرکے بھوک سے لڑنے والے یونس کی لاش اور اس کے معصوم بچوں کے نحیف لاشے میونسپلٹی کے ملازمین نے بنا ہاتھ لگائے اور غسل دئیے قبروں کے سپرد کردئیے۔
بھوک کی جنگ لڑنا وبا سے لڑنے سے کہیں مشکل تھا ۔یونس نے اپنے بچوں کو آخری چند روز بھوک سے بچانے میں صرف کردئے تھے۔۔وہ امراء کے افراد جن کو ان کے اہل خانہ بھی دھتکار دیتے ۔وبا کے دنوں میں جب رشتے ایک دوسرے کے لئے سرد ہوگئے ۔جب میتوں کو دفنانا، کفنانا جنگ جیسا بن گیا تھا یونس روزانہ بچوں کی معصوم خواہشات کی خاطر لاشوں کو سجا سنوار کر سفر ِآخرت پر روانہ کرتا تھا تاکہ اس کے گھر کا کمزور چولہا جلتا رہے ۔
آخر کار وہ بھوک سے جیت کر اس چکر سے آزاد ہو کر بچوں سمیت اُس دیس نکل گیا جہاں خواہشات پر کسی کے پہرے نہیں ہوتے ۔جہاں بچوں کو بھوک اور افلاس سے بلکنا نہیں پڑتا ۔جہاں بچوں کی تمام فرمائشیں بن کہے پوری ہوجاتی ہیں ۔
غریب یونس اس کے علاوہ اور اپنے آنگن کے بدنصیب پھولوں کو اور دے بھی کیا سکتا تھا۔